روس میں اپنی بیوی کو تھپڑ مار دینا بہت سے لوگوں کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں اور رواں ہفتے توقع ہے کہ ملک کی پارلیمان ایسے اقدام کو کلی طور پر قابل سزا جرم قرار نہ دینے کی قانون سازی کو منظور کر لے گی۔
جسمانی تشدد روس میں ایک قابل سزا جرم ہے لیکن تقریباً 20 فیصد روسی کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں کبھی کبھار اپنی بیوی یا بچے کو جسمانی طور پر نشانہ بنانے میں کوئی حرج نہیں۔
روس کے ایوان زیریں "ڈوما" کا ایک پینل پہلے ہی اس بل کی ابتدائی منظوری دے چکا ہے جس میں گھریلو تشدد کو جرم قرار نہ دینے کا کہا گیا ہے۔
اگر یہ مسودہ قانون ڈوما میں بدھ کو دوسرے مرحلے میں بھی منظور کر لیا جاتا ہے تو تیسرے اور آخری مرحلے میں اس کی منظوری تقریباً یقینی ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس بل میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔
ڈوما سے منظوری کے بعد یہ ایوان بالا میں بھیجا جائے گا جو عموماً ایوان زیریں کی منظور کردہ قانون سازی کو قبول کر لیا کرتا ہے۔ پارلیمان سے منظوری کے بعد یہ قانون صدر ولادیمر پوتن کو ارسال کر دیا جائے گا۔
روس میں گھریلو تشدد سے متعلق معلومات غیر واضح ہیں لیکن وزارت داخلہ کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ روس میں تشدد پر مبنی 40 فیصد جرائم میں خاندان والے ہی ملوث ہوتے ہیں۔
2013ء میں گھریلو تشدد کے واقعات میں نو ہزار سے زائد خواتین کی ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
یہ مسودہ قانون گزشتہ موسم گرما میں سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے اس فیصلے کی روشنی میں تیار کیا گیا جس میں ایسے تشدد کو قابل سزا جرم تصور نہ کرنے کا کہا گیا تھا کہ جس سے جسمانی طور پر کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو، لیکن عدالت نے اہل خانہ پر جسمانی تشدد کرنے کے ملزمان پر فوجداری الزامات برقرار رکھنے کا کہا تھا۔
تاہم قدامت پسند سماجی کارکنوں کا اعتراض تھا کہ عدالتی فیصلے کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر والدین بچے کو ماریں گے تو انھیں بچے پر تشدد کرنے والے کسی بیگانے سے زیادہ سزا ملے گی۔
اس مسودہ قانون میں اہل خانہ کے کسی رکن پر جسمانی تشدد کی سزا 30 ہزار روبل سے کم یا 15 دن کی قید تجویز کی گئی ہے۔
ماسکو میں قائم گھریلو تشدد سے متعلق روس کی واحد 'ہاٹ لائن' "اینا فاؤنڈیشن" کو گزشتہ سال پانچ ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی تھیں۔
فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ بہت سی کالز کا جواب اس بنا پر نہیں دیا جا سکا کیونکہ یہ ہاٹ لائن صبح سات بجے سے رات نو بجے تک ہی کام کرتی ہے۔
اس ہاٹ لائن سے وابستہ ارینا مٹوینکو کہتی ہیں کہ ڈوما کی یہ قانون سازی "صورتحال کو بہتر نہیں کرے گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ ہاٹ لائن پر کال کرنے والی اکثر خواتین کو پہلے یہ ادراک نہیں تھا کہ گھریلو تشدد ایک قابل سزا جرم ہے۔
ایک سرگرم کارکن الیونا پوپوا نے اس بل کے خلاف "آن لائن درخواست" جاری کی ہے جس پر اب تک ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد لوگ دستخط کر چکے ہیں۔
اس مسودہ قانون کو تیار کرنے والوں میں شامل اولگا باٹالینا نے گزشتہ ہفتے ڈوما میں کہا تھا کہ ایسا جسمانی گھریلو تشدد جو "جذباتی کیفیت کا نتیجہ ہو، جس میں بدنیتی شامل نہ ہو اور اس کے نتائج سنگین نہ ہوں"، اس کی سزا کم ہونی چاہیے۔
"جسمانی تشدد میں بہت زیادہ نقصان نہیں ہوتا، ہم یہاں بات کر رہے ہیں، خراشوں اور زخموں کی جو کہ بہت غلط ہے۔"
اس بل کے خلاف تاحال بڑے پیمانے پر کوئی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔