یوکرین کے وزیرِ خارجہ دیمترو کولیبا نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میخوان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے اس سے قبل عالمی طاقتوں پر زور دیا تھا کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی تذلیل نہ کریں تاکہ روس یوکرین تنازع کو سفارتی اقدامات کے ذریعے حل کرنے کے امکانات موجود رہیں۔
دوسری طرف برطانیہ کا کہنا ہے کہ روس فوجی دستوں کو استعمال کرنے کے بجائے لوہانسک کے مقامی دستوں پر انحصار کر رہا ہے اور یہ حکمتِ عملی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ روس اپنے تربیت یافتہ فوجی دستوں کے جانی نقصان سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دیمترو کولیبا کا کہنا ہے کہ روس کو تذلیل سے محفوظ رکھنے کے لیے فرانس کی اپیل صرف فرانس کی تذلیل کا سبب بن سکتی ہے جب کہ ان کے بقول اس کے علاوہ ایسی اپیل ہر اس ملک کی تذلیل کا سبب بن سکتی ہے جو اس کا مطالبہ کرے گا۔
کولیبا کا ہفتے کو کی جانے والی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہنا تھا کہ یہ روس ہی ہے جس نے اپنی تذلیل خود کی ہے۔
سوشل میڈیا پوسٹ میں یوکرین کے وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم سب کو اس چیز پر توجہ دینی چاہیے کہ روس کو اس کے مقام پر کیسے پہنچانا ہے جس سے امن آئے اور زندگیاں محفوظ بنائی جائیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں کا جمعے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہمیں روس کی تذلیل نہیں کرنی چاہیے تاکہ جس دن جنگ رکے تو سفارتی ذرائع کے ذریعے خارجی راستہ اپنایا جا سکے۔
صدر کا کہنا تھا کہ فرانس ثالثی کا اہم کردار ادا کرے گا۔
میخواں نے مزید کہا کہ وہ روسی صدر کو یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنی عوام کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ ایک تاریخی اور بنیادی غلطی کی ہے۔
فرانس کے صدر کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ روس کے صدر نے خود کو تنہا کر لیا ہے اور تنہائی میں پناہ لینا ایک الگ چیز ہے جب کہ اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا ایک کٹھن کام ہے۔
فرانسیسی صدر نے اپنے روسی ہم منصب سے رواں سال فروری میں یوکرین پر ماسکو کے حملے کے بعد سے بات چیت جاری رکھنے کی کوشش کی ہے۔
میخواں کے مؤقف کو یورپ میں بعض ممالک کی طرف سے متعدد بار تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیوں کہ وہ اس اقدام کو پوٹن پر مذاکرات کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایمانوئل میخواں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے روسی صدر سے باقاعدگی سے رابطے میں ہیں تا کہ جنگ بندی کرائی جا سکے اور کیف اور ماسکو کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہو سکے۔
یوکرین پر روس کے حملے جاری
دوسری طرف یوکرین میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک روسی کروز میزائل نے جنوبی یوکرین میں نیوکلیئر پاور پلانٹ پر انتہائی نچلے درجے کی پرواز کی ہے۔
یوکرین کے سرکاری نیوکلیئر پاور اسٹیشن آپریٹر نے روس کے میزائل کی اس پرواز کو ‘جوہری دہشت گردی’ قرار دیا ہے۔
علاوہ ازیں برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے مشرقی یوکرین کے شہر سیورو ڈونٹسک میں یوکرین کی افواج کے جوابی حملوں کی تفصیلات جاری کی ہیں۔
برطانوی وزارتِ دفاع کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق یوکرین، روس کی جارحانہ جنگی حکمتِ عملی کو زائل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
تفصیلات میں مزید کہا گیا ہے کہ روس اپنے باقاعدہ دستوں کو استعمال کرنے کے بجائے لوہانسک کے دستوں پر انحصار کر رہا ہے جو روس کے اتحادی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ دستے مکمل طور پر مسلح نہیں ہیں جب کہ ان میں شامل اہلکار کم تربیت یافتہ ہیں جب کہ ان دستوں کے پاس روسی فوج کے مقابلے میں بھاری جنگی سازوسامان کی بھی کمی ہے۔
برطانیہ کا مزید کہنا ہے کہ یہ حکمتِ عملی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ روس اپنے تربیت یافتہ فوجی دستوں کے جانی نقصان سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ دفاع کرنے والے گروپ کا میزبان
ادھر امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ وہ اس گروپ کی میزبانی کریں گے جو یوکرین کو روس کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے دی جانے والے امداد کو منظم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
یہ ‘یوکرین ڈیفنس کونٹیکٹ گروپ’ رواں ہفتے 15 جون کو برسلز میں ملے گا۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ جاری جنگ کے آغاز سے اب تک گولہ باری سے مسیحی برادری کے 113 گرجہ گھر تباہ ہو چکے ہیں۔