اقوام متحدہ میں روس کے سفیر نے شمالی عراق میں فوجیں تعینات کرنے پر ترکی پر سخت تنقید کی ہے۔ گزشتہ ماہ ترکی کی طرف سے شامی سرحد پر روس کا ایک جنگی جہاز مار گرائے جانے کے واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کی کیفیت برقرار ہے۔
سفیر وتالی چرکن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’ہمارے خیال میں ترکی نے غیر محتاط اور سمجھ سے بالا طریقے سے کام لیا ہے اور عراق کے علاقے میں عراقی حکومت کی اجازت کے بغیر اضافی تعیناتیاں کی ہیں۔"
روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انقرہ کی طرف سے فوجیوں اور ٹینکوں کی عراقی علاقے میں تعیناتی سے متعلق بند کمرے میں بحث کی درخواست کی ہے۔ بغداد نے انقرہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً بغیر اجازت کے بھیجی گئی فوجیں باہر نکالے۔
’’انہوں نے بنیادی طور پر یہ کہہ کر اس کی وضاحت کی ہے کہ یہ داعش کے خلاف لڑائی اور عراقی مفادات کے حق میں ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر عراقی حکومت سے اجازت کیوں نہیں لی گئی؟‘‘
روس کے سفیر نے امریکہ کی قیادت میں قائم 65 ممالک کے اتحاد کی شام اور عراق میں داعش کے خلاف فضائی کارروائیوں پر اس لیے تنقید کی کہ یہ صدر بشار الاسد کی اجازت کے بغیر کی جا رہی ہیں۔
ستمبر میں روسی صدر ولادیمر پوتن نے داعش کے خلاف لڑائی کے لیے ایک عالمی اتحاد قائم کرنے کی تجویز دی تھی جس میں صدر اسد کی فورسز بھی شامل ہوں مگر ان کی اس تجویز کو عالمی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ چرکن نے کہا کہ ترکی کا اقدام ایسے اتحاد کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے روسی طیارہ گرائے جانے کا مسئلہ سلامتی کونسل کے سامنے اٹھایا تو انہوں نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ اس واقعے کا ترک فوجوں کی تعیناتی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ یہ ’’ترکی کے غیر محتاط رویے کی ایک اور مثال ہے۔‘‘
اقوام متحدہ میں عراق کے سفیر محمد علی الحاکم نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ عراق اور ترکی دوطرفہ طور پر فوجیوں کی تعیناتی کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’’ہم اس پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے ابھی اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لانے کا فیصلہ نہیں کیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ روس اپنی مرضی سے اس مسئلے کو کونسل میں لے کر آیا ہے اور اس سلسلے میں روس نے عراقی حکومت سے کوئی مشاورت نہیں کی۔ انہوں نے روس کے بارے میں کہا کہ ’’وہ جس مسئلے پر چاہے بات چیت کر سکتا ہے۔‘‘