ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ سارچے کے گزرنے اور روس میں شہاب ثاقب کے ٹکڑوں کی بارش دو مختلف واقعات ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ ان کے بقول یہ محض اتفاق ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی روز پیش آئے۔
روس میں شہاب ثاقب کے ٹکڑے گرنے سے زخمیوں کی تعداد 1200 ہوگئی ہے جب کہ لگ بھگ 45 میٹر قطر کا ایک بڑا سیارچہ جمعہ کو زمین کے انتہائی قریب سے بحفاظت گزر گیا۔
روس میں ہزاروں افراد یورول کے پہاڑوں اور چیجیابنسک کے علاقے میں شہاب ثاقب کے ٹکڑوں سے ہونے والے نقصانات اور صفائی و امداد کے کاموں میں مصروف ہیں۔
حکام کے مطابق یہ فولادی ٹکڑے تیس کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین پر گرے مگر خوش قسمتی سے یہ کسی آبادی والے علاقے میں نہیں گرے۔ ان ٹکڑوں کے زمین سے ٹکرانے کے باعث زوردار دھماکے ہوئے جن سے عمارتوں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ جو زیادہ تر افراد کے زخمی ہونے کا باعث بنے۔
روس میں حکام کا کہنا ہے کہ یورول کے پہاڑی سلسلے پر پھٹ کر ایک جھیل میں کرنے والے شہاب ثاقب کے ایک ضخیم ٹکڑے کی تلاش کے لیے غوطہ خور کارروائی میں مصروف ہیں۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ سارچے کے گزرنے اور روس میں شہاب ثاقب کے ٹکڑوں کی بارش دو مختلف واقعات ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ ان کے بقول یہ محض اتفاق ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی روز پیش آئے۔
ڈی اے 14 کے نام سے گزشتہ سال دریافت ہونے والے سیارچہ زمین سے تقریباً 27 ہزار سات سو کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا جو کہ خلا میں موجود موسمیاتی اور مواصلاتی سیٹیلائٹس کی زمین سے دوری سے بھی کم فاصلہ تھا۔
امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ روس میں گرنے والے شہاب ثاقب کے ٹکڑے 1908 کے بعد پیش آنے والا سب سے بڑا اور اہم واقعہ ہے۔ 1908 میں سائبیریا میں ایک سیارچہ یا دم دار ستارہ ٹکرایا تھا جس سے دو ہزار ایک سو پچاس مربع کلومیٹر کے علاقے میں لگ بھگ آٹھ کروڑ درخت ختم ہوگئے تھے۔
امریکی کانگریس نے خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ زمین کے قریب موجود ایک کلومیٹر یا اس سے بڑے سیارچوں کی دریافت اور ان پر نظر رکھے۔ اس کا مقصد ان سیارچوں کے زمین سے ٹکرانے خدشے کو دیکھنا اور اگر ضرورت پڑے تو انھیں تباہ کرنے کے لیے خلائی مشن بھیجنا تھا۔
تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال قبل دس کلومیٹر قطر کا ایک ایسا ہی ٹھوس عنصر زمین پر گرا تھا اور ماہرین کے بقول اسی باعث کرہ ارض سے بہت سے نباتات، حیوانات اور ڈائناسورس کے خاتمے کا آغاز ہوا تھا۔ یہ علاقہ اب یوکاتان کے نام سے جزیرہ نما میکسیکو میں واقع ہے۔
روس میں ہزاروں افراد یورول کے پہاڑوں اور چیجیابنسک کے علاقے میں شہاب ثاقب کے ٹکڑوں سے ہونے والے نقصانات اور صفائی و امداد کے کاموں میں مصروف ہیں۔
حکام کے مطابق یہ فولادی ٹکڑے تیس کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین پر گرے مگر خوش قسمتی سے یہ کسی آبادی والے علاقے میں نہیں گرے۔ ان ٹکڑوں کے زمین سے ٹکرانے کے باعث زوردار دھماکے ہوئے جن سے عمارتوں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ جو زیادہ تر افراد کے زخمی ہونے کا باعث بنے۔
روس میں حکام کا کہنا ہے کہ یورول کے پہاڑی سلسلے پر پھٹ کر ایک جھیل میں کرنے والے شہاب ثاقب کے ایک ضخیم ٹکڑے کی تلاش کے لیے غوطہ خور کارروائی میں مصروف ہیں۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ سارچے کے گزرنے اور روس میں شہاب ثاقب کے ٹکڑوں کی بارش دو مختلف واقعات ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ ان کے بقول یہ محض اتفاق ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی روز پیش آئے۔
ڈی اے 14 کے نام سے گزشتہ سال دریافت ہونے والے سیارچہ زمین سے تقریباً 27 ہزار سات سو کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا جو کہ خلا میں موجود موسمیاتی اور مواصلاتی سیٹیلائٹس کی زمین سے دوری سے بھی کم فاصلہ تھا۔
امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ روس میں گرنے والے شہاب ثاقب کے ٹکڑے 1908 کے بعد پیش آنے والا سب سے بڑا اور اہم واقعہ ہے۔ 1908 میں سائبیریا میں ایک سیارچہ یا دم دار ستارہ ٹکرایا تھا جس سے دو ہزار ایک سو پچاس مربع کلومیٹر کے علاقے میں لگ بھگ آٹھ کروڑ درخت ختم ہوگئے تھے۔
امریکی کانگریس نے خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ زمین کے قریب موجود ایک کلومیٹر یا اس سے بڑے سیارچوں کی دریافت اور ان پر نظر رکھے۔ اس کا مقصد ان سیارچوں کے زمین سے ٹکرانے خدشے کو دیکھنا اور اگر ضرورت پڑے تو انھیں تباہ کرنے کے لیے خلائی مشن بھیجنا تھا۔
تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال قبل دس کلومیٹر قطر کا ایک ایسا ہی ٹھوس عنصر زمین پر گرا تھا اور ماہرین کے بقول اسی باعث کرہ ارض سے بہت سے نباتات، حیوانات اور ڈائناسورس کے خاتمے کا آغاز ہوا تھا۔ یہ علاقہ اب یوکاتان کے نام سے جزیرہ نما میکسیکو میں واقع ہے۔