|
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فوجی یا اقتصادی اقدامات کو مسترد کرنے سے انکار کے بعد، روس نے کہا ہے کہ وہ گرین لینڈ کی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعرات کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم اس صورت حال میں ہونے والی ڈرامائی پیش رفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اور خدا کا شکر ہے کہ ابھی یہ معاملہ بیانات کی سطح پر ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ آرکٹک زون سے ہمارے قومی اور اسٹرٹیجک مفادات جڑے ہیں۔ ہم آرکٹک زون میں موجود ہیں اور ہم وہاں اپنی موجودگی قائم رکھیں گے۔
گرین لینڈ کا ایک بڑا حصہ، جو زیادہ تر آرکٹک سرکل کے اوپر واقع ہے، سرکاری طور پر 1953 سے ڈنمارک کی بادشاہت کا حصہ چلا آ رہا ہے، تاہم اس جزیرے پر وہاں کے لوگوں کی اپنی حکومت قائم ہے۔
قومی سلامتی کا معاملہ
منگل کے روز فلوریڈا میں ایک نیوز کانفرنس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کو سیکیورٹی کے مقاصد کے لیے گرین لینڈ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے فوجی یا اقتصادی ذرائع استعمال کرنے کے امکان کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ آیا ڈنمارک کا اس پر کسی طرح کا کوئی قانونی حق ہے۔ لیکن اگر کوئی حق ہے بھی تو انہیں اس سے دستبردار ہو جانا چاہیے، کیونکہ ہمیں اپنی قومی سلامتی کے لیے اس کی ضرورت ہے۔
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ اس تمام علاقے میں چین کے بحری جہاز ہیں۔ تمام علاقے میں روس کے بحری جہاز ہیں۔ ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔
ایک تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کی تجزیہ کار لیانا فکس کہتی ہیں کہ آرکٹک کے زیادہ تر حصے کی طرح گرین لینڈ بھی تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرکٹک تیزی سے بڑی طاقتوں کی مسابقت اور دشمنی کا زون بن رہا ہے۔ اور امریکہ کو یہ تشویش ہے کہ وہ یہ کھیل ہار رہا ہے۔
لیانا فکس نے کہا کہ آرکٹک کا علاقہ تجارتی سامان بلکہ اہم معدنیات، خاص طور پر زمین سے نکلنے والی نایاب معدنیات، دونوں حوالوں سے زیادہ قابل رسائی ہو گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک فوجی زون بھی بن رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روس اس خطے میں چینی ساحلی محافظوں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔
گرین لینڈ برائے فروخت نہیں
ڈنمارک نے یہ واضح کر دیا ہے کہ گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے۔ ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکی راسمیسن نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ ٹرمپ کے بیانات، ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کے لیے بحران کا باعث بن رہے ہیں۔
SEE ALSO: گرین لینڈ کیا ہے اور امریکہ کے لیے اہم کیوں ہے؟راسمیسن نے بدھ کے روز کہا کہ میں ایک ایسے صدر کو دیکھ رہا ہوں، جو وائٹ ہاؤس جانے کے راستے پر ہیں۔ جن کی زیادہ توجہ آرکٹک پر ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ علاقہ ان کے پاس ہے۔ ڈنمارک کی طرف سے یہ علاقہ ہمارے پاس بھی ہے۔ اور ہمارے پاس یہ نیٹو کے اندر بھی ہے۔
تجزیہ کار فکس کہتی ہیں کہ ڈنمارک کو مخمصے کا سامنا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈنمارک پر بھی یہ پوری طرح واضح ہے کہ امریکہ کی طرف سے گرین لینڈ میں نہ صرف سرمایہ کاری میں تعاون بلکہ فوجی تعاون بھی حقیقتاً ہر ایک کے فائدے میں ہو گا۔
کئی یورپی رہنماؤں نے ٹرمپ کے بیانات کو مسترد کر دیا ہے، تاہم زیادہ تر نے ایک ایسے صدر پر، جو عنقریب اپنا عہدہ سنبھالنے والے ہیں، براہ راست تنقید سے اجتناب کیا۔
جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ مغرب کی بنیادی اقدار خطرے میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحدوں کے ناقابل تسخیر ہونے کے اصول کا اطلاق ہر ملک پر ہوتا ہے، چاہے وہ ہمارے مغرب میں ہو یا مشرق میں ہو۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل برو نے زیادہ براہ راست بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے لیے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا کے کسی ملک کو، چاہے وہ کوئی بھی ہو، اور مجھے روس سے شروع کرتے ہوئے کہنے دیں ۔۔۔ کہ وہ خودمختار سرحدوں کی وضاحت کرے۔
گرین لینڈ کی آزادی
اس دوران گرین لینڈ کی حکومت مکمل آزادی کے لیے ریفرنڈم کرانے پر زور دے رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کے مستقبل کا فیصلہ صرف وہاں کے عوام کریں گے۔
گرین لینڈ کے وزیر اعظم موٹ بوروپ ایگیڈ نے جمعرات کو کوپن ہیگن کے اپنے دورے کے دوران کہا، "گرین لینڈ ایک نئے دور اور ایک نئے سال کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔ گرین لینڈ کے لوگ، اس سے قطع نظر کہ وہ کہاں رہتے ہیں، اس کے ہی عوام ہیں۔ اس زمانے کے لوگوں کی طرح، ہمیں اپنے ملک کو ایک نئے مستقبل کی راہ پر ڈالنے کے لیے لازمی طور پر متحد ہونا چاہیے۔"
(وی او اے نیوز)