روس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام مسترد کر دیا

کریملن ترجمان (فائل)

حال ہی میں جاری ہونے والی دو نئی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ سن 2016 کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی کوششوں کا دائرہ ٴکار اور حجم اس سے کہیں وسیع ہے جس کا پہلے اندازہ لگایا گیا تھا۔

اِس ہفتے سامنے آنے والی اِن رپورٹوں میں، امریکی انٹیلی جنس کے اِس بارےمیں اخذ کردہ نتائج کی حمایت کی گئی ہے۔

جنوری سن 2017 میں شائع کردہ ایک غیر خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سن2016 کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کا مقصد یہ تھا کہ روس اپنے پسندیدہ امیدوار کو امریکہ کا صدر منتخب کرائے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی کومپیوٹیشنل اینڈ پروپیگینڈا پراجیکٹ اور نیٹ ورک کا تجزیہ کرنے والی فرم ’گرافیکا‘ کے مطابق، یہ بلکل واضح ہے کہ تمام پیغامات صاف طور پر ری پبلکن جماعت اور خصوصی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے۔

روس نے اِن دو رپورٹوں میں عائد کئے جانے والے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ کریملن کے ترجمان، دمتری پیسکوف نے الزامات کو ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیا ہے۔

اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی خبر کے مطابق، اخذ کردہ نتائج کے مطابق، انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی نامی گروپ کے لئے کام کرنے والےروسیوں نے سن 2009 کے انتخابات میں اثر انداز ہونے کیلئے سوشل میڈیا کے ساتھ تجربات کرنا شروع کئے تھے، اور بعد ازاں سن 2013 کے امریکی انتخابات تک اپنے دائرہ کار کو وسعت دی تھی۔
بعد میں انہوں نے سوشل میڈیا کی یوٹیوب، فیس بک اور انسٹاگرام سمیت دیگر معروف اور مقبول سائٹوں کو بھی اپنی مہم میں شامل کیا۔ گن رائیٹس، امیگریشن، اور پولیس تشدد جیسے اور سماجی مسائل کو موضوع بنا کر تقسیم اور عدم اطمینان کا بیج بونے کیلئے استعمال کیا۔

آکسفورڈ اور گریفیکا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قدامت پسند اور دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے ووٹروں کی زبردست حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی حمایت کریں۔ رپورٹ کے مطابق، باقی ووٹروں کو اکسایا گیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں، یا پھر ہلیری کلنٹن کو ووٹ دینے سے احتراز کریں اور یا عمومی طور پر انتخابات میں شریک ہونے کے بارے میں شکوک پیدا کریں۔

روس کی ’انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی‘ نے افریقی نژاد امریکی ووٹروں کو بھی خصوصی طور پر فیس بک اور انسٹاگرام پر تشہیر کرنے اور ویڈیو جاری کرنے پر اکسایا۔
آکسفورڈ اور گریفیکا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقی نژاد امریکیوں کو اکسایا گیا، تاکہ انکی سیاسی طاقت تسلیم شدہ اداروں کی سمت نہ جائے اور وہ افریقی نژاد امریکیوں کو درپیش سماجی ڈھانچے کی ناہمواریوں، جس میں پولیس تشدد، غربت اور قید کی غیر متناسب سطح پر مشتعل ہوں۔
امریکی آبادی کے دیگر گروپوں، جن میں آزاد خیال طبقے، خواتین، مسلمان، لاطینی امریکیوں اور سابق فوجیوں کو بھی اِسی انداز میں ہدف بنایا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ ووٹ دینے سے احتراز کریں۔

سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ، سینیٹر رچرڈ بَر نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نئے جاری ہونے والے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کیسے روس نے جارحانہ انداز میں امریکیوں کو نسل، مذہب، اور نظریات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی، اور کیسے انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی نے جمہوری اداروں سے امریکیوں کا اعتماد ختم کرنے پر کام کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے اس گروپ کی سرگرمیاں ابھی تک جاری ہیں۔

سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے نائب سربراہ سینیٹر مارک وارنر کا کہنا ہے کہ اسے ہمیں بیداری کی ایک صدا سمجھنا چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ اس کے لئے ہمیں طویل عرصے سے درکار، سوشل میڈیا پر حدود قائم کرنا ہونگی۔

پیر کے روز، فیس بک نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ سن 2016 کے انتخابات میں ’انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی‘ کی فیس بک اور انسٹاگرام پر کی گئی سرگرمیوں کے بارے میں تفتیش کاروں سے پوری طورح سے تعاون کر رہے ہیں۔