اس بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ روس ، اقوام متحدہ کی کوششوں سے ہونے والے اس معاہدے میں توسیع نہیں کرے گا، جس کے تحت یوکرین سے غلہ، دنیا کے ان حصوں کو جاتا تھا جہاں اس کی قلت ہے اور جہاں لوگ بھوک کا شکار ہیں۔اگر ایسا ہوا تو جہازجنگ سے تباہ حال ملک کی بحیرہ اسود کی بندر گاہوں کی جانب نہیں جا سکیں گے اور غذائی اشیاء کی بر آمد ات کم ہوتی جائیں گی۔
ترکی اور اقوام متحدہ کی کوششوں سے گزشتہ موسم گرما میں یہ معاہدہ دنیا بھر میں غذائی بحران کو کم کرنے کے لئے طے کروایا گیا تھا۔ اس کےساتھ روس سے ایک الگ معاہدہ بھی ہوا تھا ، جس کے تحت اس کی غذائی اشیاء اور کھاد کی آمدورفت میں سہولت فراہم کرنا طے کیا گیا تھا۔
ماسکو کا اصرار ہے کہ اسے اب بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ریکارڈ مقدار میں گندم بر آمد کرتا رہا ہے۔
روسی عہدیدار بار بار کہتے رہے ہیں کہ بحیرہ اسود کے ذریعے غلہ بھیجنے کے معاہدے میں توسیع کا کوئی جواز نہیں ہے جس کی پیر کے روز تجدید ہونی چاہئیے۔ وہ اس سے پہلے بھی اس کی تجدید نہ کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں، لیکن پھر دو بار اس کی دو دو ماہ کے لئے توسیع بھی کر چکے ہیں۔ جب کہ معاہدے میں چار ماہ کے لئے توسیع طے پا ئی تھی۔
اقوام متحدہ اور دیگر اس نازک نوعیت کے معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ روس اور یوکرین دونوں ہی گندم، جو، خوردنی تیل اور دوسری غذائی اشیاء بڑے پیمانے پرفراہم کرنے والےملک ہیں، جن پر افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کے ملک انحصار کرتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت یوکرین بتیس اعشاریہ آٹھ ملین میٹرک ٹن غلہ بر آمد کر سکا تھا ، جس میں سے آدھے سے زیادہ ترقی پذیر ملکوں کو گیا تھا۔
اس معاہدے سے عالمی سطح پر غذائی اشیاء کی قیمتیں کم کرنے میں مدد ملی۔
اگر روس اس معاہدے سے نکل جاتا ہے تو صومالیہ، ایتھوپیا اور افغانستان سمیت ان ملکوں کے لئے جو قحط کے خطرے سے دو چار ہیں ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد کا ایک ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ اور ان ملکوں میں فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ پیچیدہ ہو جائے گا جہاں تصادم ہے، معاشی بحران ہے یا خشک سالی ہے۔
اقوام متحدہ، روس سے معاہدے پر قائم رہنے کے لئے مذاکرات کر رہا ہے۔ اور ترجمانStephane Dujarricنے کہاہے کہ اعلی عہدیدار جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کر رہے ہیں تاکہ معاہدوں کے تسلسل کو جاری رکھا جائے۔
روس کا اصرار ہے کہ معاہدے سے اس کی اپنی برآمدات کو کوئی فائدہ نہیں ہے اور وہ الزام عائد کرتا ہے کہ مغربی ملکوں کی تعزیریں اس کی سرمایہ کاری اور انشورنس میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔
ترقی پذیر ملکوں میں جن کا درآمدی غذائی اشیاء پر بڑھتا ہوا انحصار ہے، کینیا سے لے کر شام تک، کمزور کرنسیوں کے باعث مقامی قیمتیں بلند ہیں کیونکہ وہ امریکی ڈالر میں ادائیگی کرتے ہیں۔
ایسٹ افریقہ کے لئے انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے ریجنل ایمرجنسی ڈائریکٹر شاش وت سراف کہتے ہیں کہ ایسٹ افریقہ میں کوئی 80 فیصد غلہ روس اور یوکرین سے برآمد ہوتا ہے، پورے ایسٹ افریقہ میں پچاس ملین سے زیادہ لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ اور اس سال غذائی اشیاء کی قیمتوں میں کوئی چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان کامزید کہنا ہے کہ عالمی برادری کے لئے یہ ضروری ہے کہ نہ صرف ایک طویل المدت معاہدہ کیا جائے بلکہ خوراک کے عدم تحفظ کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے، پائیدار حل نکالا جائے۔
(اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے )