روسی رہنما نے یہ بات اتوار کے روز کہی، جس سے دو ہی روز قبل اُن کے یوکرینی ہم منصب نے یوکرین کی افواج اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان لڑائی میں ہفتے بھر کی یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا
واشنگٹن —
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ کشیدگی کے شکار مشرقی یوکرین کے معاملے پر امن مذاکرات کے لیے یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو کے مطالبے کی حمایت کی جائے گی۔ تاہم، اختتام ہفتہ لڑائی جاری رہی۔
مسٹر پیوٹن نے کہا ہے کہ سیاسی مفاہمت کی صورت نکلنی چاہیئے جس کے ذریعے مشرقی یوکرین کے روسی زبان بولنے والے افراد کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
روسی رہنما نے یہ بات اتوار کے روز کہی، جس سے دو ہی روز قبل اُن کے یوکرینی ہم منصب نے یوکرین کی افواج اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان لڑائی میں ہفتے بھر کی یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
مسٹر پوروشنکو نے کہا کہ وہ اُن علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کریں گے جو مشرقی یوکرین میں ’قتل اور اذیت‘ کے جرائم میں ملوث نہیں ہیں۔
فرانسسی صدر، فرانسواں ہولاں اور جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل نے تمام فریقوں سے لڑائی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ مسٹر پیوٹن سے ٹیلی فون گفتگو میں، اُنھوں نے روسی رہنما پر زور دیا کہ مشرقی یوکرین میں مزید فوجی آلات اور مسلح افراد کی دراندازی روکنے کے لیے یوکرین کے ساتھ اپنی سرحد پر مکمل چوکسی کو یقینی بنایا جائے۔
مسٹر پیوٹن نے کہا کہ ایسے میں جب وہ مسٹر پوروشنکو کے جنگ بندی کے مطالبے کا خیر مقدم کرتے ہیں، ’بدقسمتی سے‘ ہفتے کی رات گئے یوکرین کی طرف سے توب خانے کی گولہ باری جاری رہی۔
یوکرین کے رہنما نے جمعے کو اپنے امن کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے تمام فریق پر زور دیا تھا کہ اس منصوبے کی حمایت کی جائے اور مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کا تصفیہ تلاش کیا جائے۔ تاہم، روس نواز علیحدگی پسندوں نے یکطرفہ جنگ بندی مسترد کردی ہے۔
یوکرین کے سرحدی محافظوں سے متعلق ادارے نے کہا ہے کہ دونسک علاقے میں باغیوں نے اُن کی ایک چوکی پر حملہ کیا، جس سے چند ہی گھنٹے قبل صدر پوروشنکو نے لڑائی بند کرنے کے احکامات دیے تھے۔ واقعے میں کم از کم تین فوجی زخمی ہوئے۔
اپنے جنگ بندی کے حکم میں، مسٹر پوروشنکو نے یوکرین کی فوج اور سلامتی افواج کو سات روز کے لیے علیحدگی پسندوں کے ساتھ اپنی کارروائیاں بند رکھنے کے لیے کہا ہے۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ اس حکم نامے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ حملے کی صورت میں یوکرین کی افواج جواب نہیں دیں گی۔
مسٹر پیوٹن نے کہا ہے کہ سیاسی مفاہمت کی صورت نکلنی چاہیئے جس کے ذریعے مشرقی یوکرین کے روسی زبان بولنے والے افراد کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
روسی رہنما نے یہ بات اتوار کے روز کہی، جس سے دو ہی روز قبل اُن کے یوکرینی ہم منصب نے یوکرین کی افواج اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان لڑائی میں ہفتے بھر کی یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
مسٹر پوروشنکو نے کہا کہ وہ اُن علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کریں گے جو مشرقی یوکرین میں ’قتل اور اذیت‘ کے جرائم میں ملوث نہیں ہیں۔
فرانسسی صدر، فرانسواں ہولاں اور جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل نے تمام فریقوں سے لڑائی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ مسٹر پیوٹن سے ٹیلی فون گفتگو میں، اُنھوں نے روسی رہنما پر زور دیا کہ مشرقی یوکرین میں مزید فوجی آلات اور مسلح افراد کی دراندازی روکنے کے لیے یوکرین کے ساتھ اپنی سرحد پر مکمل چوکسی کو یقینی بنایا جائے۔
مسٹر پیوٹن نے کہا کہ ایسے میں جب وہ مسٹر پوروشنکو کے جنگ بندی کے مطالبے کا خیر مقدم کرتے ہیں، ’بدقسمتی سے‘ ہفتے کی رات گئے یوکرین کی طرف سے توب خانے کی گولہ باری جاری رہی۔
یوکرین کے رہنما نے جمعے کو اپنے امن کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے تمام فریق پر زور دیا تھا کہ اس منصوبے کی حمایت کی جائے اور مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کا تصفیہ تلاش کیا جائے۔ تاہم، روس نواز علیحدگی پسندوں نے یکطرفہ جنگ بندی مسترد کردی ہے۔
یوکرین کے سرحدی محافظوں سے متعلق ادارے نے کہا ہے کہ دونسک علاقے میں باغیوں نے اُن کی ایک چوکی پر حملہ کیا، جس سے چند ہی گھنٹے قبل صدر پوروشنکو نے لڑائی بند کرنے کے احکامات دیے تھے۔ واقعے میں کم از کم تین فوجی زخمی ہوئے۔
اپنے جنگ بندی کے حکم میں، مسٹر پوروشنکو نے یوکرین کی فوج اور سلامتی افواج کو سات روز کے لیے علیحدگی پسندوں کے ساتھ اپنی کارروائیاں بند رکھنے کے لیے کہا ہے۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ اس حکم نامے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ حملے کی صورت میں یوکرین کی افواج جواب نہیں دیں گی۔