سرکاری طور پر روس کا دعویٰ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے ۔ روسی سفارتکار ملک کی خانہ جنگی میں باہر کے اثرات کی بات کرتے ہیں۔
ماسکو —
چار عشروں سے، اسد گھرانے کے ساتھ جو شام پر حکمرانی کرتا رہا ہے، روس کے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ اب روس کی کوشش ہے کہ اسد کے بعد کے شام میں، اپنے لیے جگہ بنائے۔
شام کی خانہ جنگی سے صدر بشا ر الاسد کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے اور روس کی کوشش ہے کہ وہ حکومت کی مخالف ایسی فورس کو تیار کرے جو اس کی دوست ہو۔
روس کے مندوب شام کے اندر میٹنگ کر رہے ہیں ۔ اب سے دو ہفتے بعد، روس اٹلی میں اسی گروپ کی ایک میٹنگ میں مدد دے گا۔ اس گروپ کا نام ہے نیشنل کوآرڈینیٹنگ کمیٹی فار ڈیموکریٹک چینج اس کے برعکس، اگلے ہفتے روس مراکش میں فرینڈز آف سِریا نامی گروپ کی میٹنگ کا بائیکاٹ کرے گا۔ یہ مغربی اور عرب ملکوں کا اتحاد ہے جو شام کی حکومت کے مخالف دوسرے حریف گروپ نیشنل کوالیشن آف دی سیریئن ریوولیشنری اینڈ اپوزیشن فورسز کا حامی ہے۔
کریملن کو اُمید ہے کہ شام کے ساتھ 40 سال فوجی اور اقتصادی تعلقات کی بنیاد پر اور زیادہ قریبی تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن ماسکو میں کارنیگی آفس کے ایک علاقائی ماہر الیزیئئ مالاشینکو کہتے ہیں کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اور روس یہ کارڈ استعمال نہیں کر سکتا۔ ’’روس کے حامیوں کی جگہ اب خالی پڑی ہے ۔ ماسکو کے بشار کے ساتھ تعاون کی وجہ سے روس کے حامیوں کی جگہ خطرے میں پڑ گئی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ روس کی حامی حزبِ اختلاف کوئی بڑا کردار ادا کر سکتی ہے ۔‘‘
اسد کے خلاف دو برس سے جاری احتجاجوں میں، چالیس ہزار سے زیادہ شامی ہلاک ہو چکے ہیں، اور چھ لاکھ سے زیادہ لوگ ہمسایہ ملکوں میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
سرکاری طور پر روس کا دعویٰ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے۔ روسی سفارتکار ملک کی خانہ جنگی میں باہر کے اثرات کی بات کرتے ہیں۔
لیکن گذشتہ ہفتے، امریکہ میں خبروں کے ایک تفتیشی ادارے پرو پبلیکا نے ایسے کاغذات جاری کیے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال ماسکو نے بین الاقوامی پابندیوں کو نظر انداز کر دیا اور دمشق کو 240 ٹن وزنی شام کے پاؤنڈ کے تازہ چھپے ہوئے بینک نوٹ بھیج دیے۔ ایسے کاغذات بھی سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی حکومت شام کو چار مرمت شدہ ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
روسی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ تو محض پرانے کنٹریکٹس پورے کر رہے ہیں جو خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے کیے گئے تھے ۔ روسیوں نے کہا ہے کہ مغربی ممالک شام کے اندرونی معاملے میں مداخلت کر رہے ہیں۔
منگل کے روز، برسلز میں نیٹو کے نمائندوں کی میٹنگ میں، ترکی کی یہ درخواست منظور کر لی گئی کہ شام کے ساتھ اس کی سرحد پر پیٹریاٹس میزائل بیٹریز نصب کر دی جائیں۔ پیٹریاٹس سے حملہ آور میزائلوں یا جنگی ہوائی جہازوں کو مار گرایا جا سکتا ہے۔ خیال ہے کہ شام کے پاس کئی سو زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل موجود ہیں جو کیمیکل وار ہیڈز لے جا سکتے ہیں۔
روس کے نزدیک میزائل شکن نظام کی تنصیب کے معاملے میں، کریملن بہت حساس ہے۔ پیر کے روز روسی صدر ولادمیر پوتن ترکی گئے تھے تاکہ ترکی کو میزائل شکن نظام کی تنصیب سے باز رکھ سکیں۔
اپنے بیانات میں، مسٹر پوتن نے پیٹریاٹس کا ذکر بڑی حقارت سے کیا اور کہا کہ یہ پرانی ٹکنالوجی ہے۔ انھوں نے ترکی سے کہا کہ وہ ان کے استعمال میں احتیاط سے کام لے۔
ترکی میں ہزاروں شامی پناہ گزینوں نے کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے اور وہ شام کی حزبِ اختلاف کو ہتھیاروں کی ترسیل کی اجازت دیتا ہے۔
ماسکو میں سیاسیات کے ماہر دمتری ورخوتوروو نے کہا ہے کہ روس شام کی خانہ جنگی میں ترکی کے ملوث ہونے پر بہت زیادہ ناراض ہے۔
’’اگر ترکی نے شام کی حزبِ اختلاف کی مدد کے لیے کھل کر کوئی فوجی کارروائی کی تو روس جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔‘‘
گذشتہ دو برسوں میں، عرب موسم بہار کے تین انقلابات میں، یعنی تیونس، لیبیا اور مصر میں، کریملن کو زک اٹھانی پڑی ہے۔
کارنیگی کے مالاشینکو کہتے ہیں کہ کریملن نے کھلے عام یہ کہا ہے کہ عرب موسمِ بہار کی بے چینی میں، مغربی ملکوں کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے اس موقف سے ہٹنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ شام کے بارے میں، جو طویل عرصے سے کریملن کا اتحادی رہا ہے، پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ دمشق میں زمینی حقائق کا ادراک بڑھتا جا رہا ہے۔ روسی سفارت خانے نے شام میں رہنے والے ہزاروں روسی شہریوں میں سے کچھ کو نکالنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے بہت سی روسی عورتیں ہیں جنھوں نے سرد جنگ کے عروج میں شام اور سوویت یونین کے اتحاد کے زمانے میں شامی طالب علموں سے شادی کر لی تھی۔
شام کی خانہ جنگی سے صدر بشا ر الاسد کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے اور روس کی کوشش ہے کہ وہ حکومت کی مخالف ایسی فورس کو تیار کرے جو اس کی دوست ہو۔
روس کے مندوب شام کے اندر میٹنگ کر رہے ہیں ۔ اب سے دو ہفتے بعد، روس اٹلی میں اسی گروپ کی ایک میٹنگ میں مدد دے گا۔ اس گروپ کا نام ہے نیشنل کوآرڈینیٹنگ کمیٹی فار ڈیموکریٹک چینج اس کے برعکس، اگلے ہفتے روس مراکش میں فرینڈز آف سِریا نامی گروپ کی میٹنگ کا بائیکاٹ کرے گا۔ یہ مغربی اور عرب ملکوں کا اتحاد ہے جو شام کی حکومت کے مخالف دوسرے حریف گروپ نیشنل کوالیشن آف دی سیریئن ریوولیشنری اینڈ اپوزیشن فورسز کا حامی ہے۔
کریملن کو اُمید ہے کہ شام کے ساتھ 40 سال فوجی اور اقتصادی تعلقات کی بنیاد پر اور زیادہ قریبی تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن ماسکو میں کارنیگی آفس کے ایک علاقائی ماہر الیزیئئ مالاشینکو کہتے ہیں کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اور روس یہ کارڈ استعمال نہیں کر سکتا۔ ’’روس کے حامیوں کی جگہ اب خالی پڑی ہے ۔ ماسکو کے بشار کے ساتھ تعاون کی وجہ سے روس کے حامیوں کی جگہ خطرے میں پڑ گئی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ روس کی حامی حزبِ اختلاف کوئی بڑا کردار ادا کر سکتی ہے ۔‘‘
اسد کے خلاف دو برس سے جاری احتجاجوں میں، چالیس ہزار سے زیادہ شامی ہلاک ہو چکے ہیں، اور چھ لاکھ سے زیادہ لوگ ہمسایہ ملکوں میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
سرکاری طور پر روس کا دعویٰ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے۔ روسی سفارتکار ملک کی خانہ جنگی میں باہر کے اثرات کی بات کرتے ہیں۔
لیکن گذشتہ ہفتے، امریکہ میں خبروں کے ایک تفتیشی ادارے پرو پبلیکا نے ایسے کاغذات جاری کیے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال ماسکو نے بین الاقوامی پابندیوں کو نظر انداز کر دیا اور دمشق کو 240 ٹن وزنی شام کے پاؤنڈ کے تازہ چھپے ہوئے بینک نوٹ بھیج دیے۔ ایسے کاغذات بھی سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی حکومت شام کو چار مرمت شدہ ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
روسی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ تو محض پرانے کنٹریکٹس پورے کر رہے ہیں جو خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے کیے گئے تھے ۔ روسیوں نے کہا ہے کہ مغربی ممالک شام کے اندرونی معاملے میں مداخلت کر رہے ہیں۔
منگل کے روز، برسلز میں نیٹو کے نمائندوں کی میٹنگ میں، ترکی کی یہ درخواست منظور کر لی گئی کہ شام کے ساتھ اس کی سرحد پر پیٹریاٹس میزائل بیٹریز نصب کر دی جائیں۔ پیٹریاٹس سے حملہ آور میزائلوں یا جنگی ہوائی جہازوں کو مار گرایا جا سکتا ہے۔ خیال ہے کہ شام کے پاس کئی سو زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل موجود ہیں جو کیمیکل وار ہیڈز لے جا سکتے ہیں۔
روس کے نزدیک میزائل شکن نظام کی تنصیب کے معاملے میں، کریملن بہت حساس ہے۔ پیر کے روز روسی صدر ولادمیر پوتن ترکی گئے تھے تاکہ ترکی کو میزائل شکن نظام کی تنصیب سے باز رکھ سکیں۔
اپنے بیانات میں، مسٹر پوتن نے پیٹریاٹس کا ذکر بڑی حقارت سے کیا اور کہا کہ یہ پرانی ٹکنالوجی ہے۔ انھوں نے ترکی سے کہا کہ وہ ان کے استعمال میں احتیاط سے کام لے۔
ترکی میں ہزاروں شامی پناہ گزینوں نے کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے اور وہ شام کی حزبِ اختلاف کو ہتھیاروں کی ترسیل کی اجازت دیتا ہے۔
ماسکو میں سیاسیات کے ماہر دمتری ورخوتوروو نے کہا ہے کہ روس شام کی خانہ جنگی میں ترکی کے ملوث ہونے پر بہت زیادہ ناراض ہے۔
’’اگر ترکی نے شام کی حزبِ اختلاف کی مدد کے لیے کھل کر کوئی فوجی کارروائی کی تو روس جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔‘‘
گذشتہ دو برسوں میں، عرب موسم بہار کے تین انقلابات میں، یعنی تیونس، لیبیا اور مصر میں، کریملن کو زک اٹھانی پڑی ہے۔
کارنیگی کے مالاشینکو کہتے ہیں کہ کریملن نے کھلے عام یہ کہا ہے کہ عرب موسمِ بہار کی بے چینی میں، مغربی ملکوں کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے اس موقف سے ہٹنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ شام کے بارے میں، جو طویل عرصے سے کریملن کا اتحادی رہا ہے، پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ دمشق میں زمینی حقائق کا ادراک بڑھتا جا رہا ہے۔ روسی سفارت خانے نے شام میں رہنے والے ہزاروں روسی شہریوں میں سے کچھ کو نکالنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے بہت سی روسی عورتیں ہیں جنھوں نے سرد جنگ کے عروج میں شام اور سوویت یونین کے اتحاد کے زمانے میں شامی طالب علموں سے شادی کر لی تھی۔