کریملن کی ایک میٹنگ میں جو ٹیلیویژن پر دکھائی گئی ، روس کی فیڈرل سکیورٹی سروس کے سربراہ الیگزینڈر بورتنِکوو نے صدر دمتری میدودیو کو بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ زمین دوز ریل کی بمباری میں شمالی قفقاز کے علاقوں کے دہشت گرد گروپوں کا ہاتھ ہو۔ بورتنِکوو نے کہا کہ ان کے اس خیال کہ وجہ یہ ہے کہ جائے واردات پر مبینہ خود کش بمبار عورتوں کے جسم کے جو ٹکڑے ملے ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ انھوں مزید تفصیل نہیں بتائی۔
وزیرِ اعظم ولادمیر پیوتن نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ روس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں کا کھوج لگانے اور انہیں سزا دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔انھوں نے کہا’’ صرف متحدہ کوشش سے ہی روس اس مسئلے کا حل تلاش کر سکتا ہے۔ اس کے لیے خفیہ ہاتھوں کو اور دہشت گردی سے متعلق دوسرے تمام عناصر کو تباہ کرنا ہوگا۔‘‘
روسی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر الیگزنڈر ٹورشین نے انٹر فیکس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ بموں کے یہ دھماکے قفقاز میں دو ممتاز اسلامی باغی لیڈروں کی حالیہ ہلاکت کے جواب میں کیے گئے ہوں۔ یہ دونوں لیڈر مبینہ طور پر چیچنیا کے ایک عسکریت پسند اسلامی لیڈردَکو عمروفDoku Umarov کے ساتھی تھے، جنھوں نے حال ہی میں ماسکو پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔
سیاسی تجزیہ کار نِکولائی پتروف ماسکو میں کارنیج سنٹر سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عمروف کا شمار ان بہت سے باغی لیڈروں میں ہوتا ہے جو قفقاز میں اقتدار حاصل کرنے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شمالی قفقاز کے علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنا مشکل کام ہے کیوں کہ اس علاقے میں ایک طویل عرصے سے کوئی مرکزی قیادت نہیں ہے۔ یہاں القاعدہ کے طرح بہت سے چھوٹے چھوٹے سیل ہیں۔ کسی ایک لیڈر کی ہلاکت سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی کیوں کہ ہر سیل خود مختار ہے ۔
1990 کی دہائی سے اب تک روس نے دو بار چیچنیا کے خلاف چڑھائی کی ہے اور اندازہ ہے کہ ان دو جنگوں میں چیچنیا کے ایک لاکھ باشندے ہلاک ہوئے ہیں۔ پتروف کہتے ہیں کہ وہاں ایسے ناراض لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو خود کش بمباری کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں۔ ان لوگوں میں وہ عورتیں بھی ہیں جنہیں بلیک وڈوز کہا جاتا ہے جن کے عزیز و اقارب قفقاز کے تشدد میں ہلاک ہوئے ہیں۔
رشین اکیڈمی آف سائنس کےسرگئی آروتُنیوو کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کسی عورت کے شوہر، بھائی یا باپ کو اغوا کیا گیا ہو اور اسے اذیتیں دے کر ہلاک کر دیا گیا ہو اور وہ عورت انتقام لینے کے خواب دیکھ رہی ہو۔ ماسکو میں اگست 2004 میں جو بمباری ہوئی تھی وہ بھی ایک عورت نے کی تھی۔
آروتُنیوو کہتے ہیں کہ روس اٹھارویں صدی میں زار پیٹر ِ اعظم کے زمانے سے قفقاز کے علاقے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ سوویت دور میں چیچنیا کے لوگوں نے کریملن کی اجتماعی کاشتکاری اور دہریت کی پالیسیوں کو سخت نا پسند کیا لیکن ان کی تلخ ترین یادیں وہ ہیں جب دوسری عالمی جنگ کے بعد چیچنیا کے لاکھوں لوگوں کو جبراً ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ قفقاز کے ذریعے روس کو بحرِ کیسپین کے تیل تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا سے اس کارابطہ بھی اسی علاقے کے ذریعے سے ہے۔ اس کے علاوہ داخلی وجوہات کی بنا پر بھی ماسکو قفقاز میں پسپائی اختیار نہیں کر سکتا۔
آروتُنیوو کہتے ہیں کہ قفقاز میں ایک علاقے کو آزادی دینے سے نہ صرف مسلمان جمہوریتوں جیسے تاتارستان اوربشکیریا میں بھی آزادی کی تحریک پھیل جائے گی بلکہ مشرق بعید میں بھی روسی علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
قفقاز کی دوسرے جمہوریتوں، خاص طور سے انگشتیا اور داغستان میں سیاست دانوں اور ججوں کے قتل سمیت اکثر تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جنوری میں وزیرِ اعظم پیوتن نے علاقائی لیڈروں سے کہا کہ مقامی ڈاکوؤں کو پسپا کر دیا گیا ہے اور اب علاقے میں کرپشن اور غربت کے خلاف جنگ کی جانی چاہیئے ۔ اس علاقے سے بہت سے بے روزگار لوگ کام کی تلاش میں ماسکو جاتے ہیں۔
چیچنیا کے دوسری جنگ کے دوران ولادمیر پیوتن کی مقبولیت عروج پر تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ قفقاز کے علاقے میں امن قائم ہو جائے گا۔ نکولائی پیترو کہتے ہیں کہ قفقاز کے مسائل مسٹر پیوتن اور صدر میدودیو کی شخصیتوں کے سہارے حل نہیں ہو سکتے۔
ان مسائل کا تعلق پورے سیاسی نظام سے ہے جس کی بنیاد اداروں پر نہیں بلکہ وزیرِ اعظم اور صدر کی ذاتی مقبولیت پر ہوتی ہے ۔ جب ان کی مقبولیت کم ہو جاتی ہے جیسا کہ اقتصادی بحران کے زمانے میں ہوتا ہے اور اب جزوی طور پر چیچنیا کے لیے پیوتن کے تجویز کردہ حل کی وجہ سے ہوا ہے تو پھر پورا سیاسی نظام عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے ۔