دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اکتوبر میں ایک دھچکہ اس وقت لگا جب ترکی کے جیٹ جنگی جہازوں نے ماسکو سے شام جانے والے ایک ہوائی جہاز کو ترکی میں اترنے پر مجبور کیا۔
اسلام آباد —
روس کے صدر ولادمیر پوتن پیر، 3 دسمبر کو ترکی کے دورے پر پہنچنے والے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان شام کے سوال پر اختلافات موجود ہیں۔ ماسکو صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہا ہے اور انقرہ شامی باغیوں کا حامی ہے۔ ان اختلافات کے باوجود، دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
روس کے صدر ولادمیر پوتن کے استنبول کے ایک روزہ دورے میں، ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوان ان کے میزبان ہوں گے ۔ سفارتی کالم نگار سیمیح آئڈز کے مطابق، دونوں لیڈروں کے درمیان ذاتی تعلق بہت مضبوط ہے۔ لیکن شام کے مسئلے پر دونوں کے درمیان شدید اختلافات موجود ہیں، اور مسٹر اردوان کا رویہ ماسکو کے خلاف روز بروز سخت ہوتا جا رہا ہے ۔
’’ان کی پارٹی کی کانگریس نے ایران اور روس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ شام میں جو بھی ظالموں کی حمایت کرے گا، اسے مستقبل میں قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔ ظاہر کہ شام کے بارے میں دونوں ملکوں کا رویہ بہت مختلف ہے اور مستقبل میں ان کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اکتوبر میں ایک دھچکہ اس وقت لگا جب ترکی کے جیٹ جنگی جہازوں نے ماسکو سے شام جانے والے ایک ہوائی جہاز کو ترکی میں اترنے پر مجبور کیا۔ ترکی کا دعویٰ تھا کہ یہ جہاز شامی حکومت کے لیے اسلحہ لے جا رہا تھا، لیکن اب تک اس سلسلے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے ۔ ماسکو نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔
ماسکو نے ترکی کی اس درخواست پر بھی سخت تنقید کی ہے کہ نیٹو شام کی طرف سے اس پر ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لیے پیٹریاٹ میزائل نصب کرے ۔
لیکن اس ہفتے وزیرِ اعظم اردوان نے نسبتاً نرم رویہ اختیار کیا اور کہا کہ ماسکو شام کے بحران کا تصفیہ کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔
استنبول میں قائم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ Edam کے سربراہ Sinan Ulgen کہتے ہیں’’ترکی نے یہ بات بھی سمجھ لی ہے کہ اگر روس اپنا موقف تبدیل نہیں کرتا، تو شام کے حالات میں تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے ۔ اگر روس اسد حکومت کی حمایت جاری رکھتا ہے، تو اسد کا اقتدار بر قرار رہے گا۔‘‘
اگرچہ ترک مبصرین کو توقع نہیں کہ روس فوری طور پر شام کی حمایت ختم کرے گا، لیکن اس قسم کی قیاس آرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں کہ روس نے شام کی حمایت سے دست کش ہونا شروع کر دیا ہے۔
ایک ترک عہدے دار نے کہا ہے کہ انقرہ ماسکوکی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ مستقبل میں شام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد یا سلامتی کونسل میں شام پر لگائی جانے والی پابندیوں کے معاملے میں نرم رویہ اختیار کرے۔ مستقل رکن کی حیثیت سے، روس نے تین بار شام کے صدر اسد کی حکومت کے خلاف سخت اقدام کو روکنے کے لیے ویٹو استعمال کیا ہے۔
اگرچہ شام کے بارے میں روس اور ترکی کے درمیان اختلافات باقی ہیں، لیکن دو طرفہ تجارت پر ان سے کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ استنبول کی قادر حاس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر سولی اووزل کہتےہیں کہ صدر پوتن کے دورے میں تجارت گفتگو کا اہم موضوع ہو گی۔
’’روسی پہلا نیوکلیئر ری ایکٹر تعمیر کر رہے ہیں ۔ وہ ایک اور نیوکلیئر ری ایکٹر تعمیر کرنا چاہتےہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان توانائی کے بہت سے مسائل موجود ہیں۔ لہٰذا ، دونوں کے درمیان بات چیت کے لیے بہت کچھ ہے۔‘‘
ایک ترک عہدے دار کے مطابق، صدر پوتن کے استنبول کے دورے میں، کم از کم نصف درجن دو طرفہ سمجھوتوں پر دستخط ہوں گے جن میں سے بیشتر کا تعلق تجارت سے ہو گا۔ سفارتی کالم نگار آئڈز کہتے ہیں کہ مسٹر پوتن کے دورے سے دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کا اظہار ہوتا ہے۔
’’اس دورے سے تعلقات میں تسلسل کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے تجارتی تعلقات کو اور زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لہٰذا امکانات اتنے زیادہ خراب معلوم نہیں دیتے، ہاں یہ ضرور ہے کہ معاملات کو قابو میں رکھنا پڑے گا کیوں کہ ظاہر ہے کہ روس شام کی پشت پناہی کر رہا ہے، اور ترکی اس پالیسی کے خلاف ہے۔‘‘
شام کے معاملے میں اپنے اختلافات کو دوسرے مسائل سے الگ رکھنا اس بات کی علامت ہے کہ دوطرفہ تعلقات کتنے مضبوط ہیں۔ توقع ہے کہ صدر پیوتن کے استنبول کے دورے سے یہ تعلقات مضبوط ہوتے رہیں گے۔
روس کے صدر ولادمیر پوتن کے استنبول کے ایک روزہ دورے میں، ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوان ان کے میزبان ہوں گے ۔ سفارتی کالم نگار سیمیح آئڈز کے مطابق، دونوں لیڈروں کے درمیان ذاتی تعلق بہت مضبوط ہے۔ لیکن شام کے مسئلے پر دونوں کے درمیان شدید اختلافات موجود ہیں، اور مسٹر اردوان کا رویہ ماسکو کے خلاف روز بروز سخت ہوتا جا رہا ہے ۔
’’ان کی پارٹی کی کانگریس نے ایران اور روس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ شام میں جو بھی ظالموں کی حمایت کرے گا، اسے مستقبل میں قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔ ظاہر کہ شام کے بارے میں دونوں ملکوں کا رویہ بہت مختلف ہے اور مستقبل میں ان کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔‘‘
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اکتوبر میں ایک دھچکہ اس وقت لگا جب ترکی کے جیٹ جنگی جہازوں نے ماسکو سے شام جانے والے ایک ہوائی جہاز کو ترکی میں اترنے پر مجبور کیا۔ ترکی کا دعویٰ تھا کہ یہ جہاز شامی حکومت کے لیے اسلحہ لے جا رہا تھا، لیکن اب تک اس سلسلے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے ۔ ماسکو نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔
ماسکو نے ترکی کی اس درخواست پر بھی سخت تنقید کی ہے کہ نیٹو شام کی طرف سے اس پر ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لیے پیٹریاٹ میزائل نصب کرے ۔
لیکن اس ہفتے وزیرِ اعظم اردوان نے نسبتاً نرم رویہ اختیار کیا اور کہا کہ ماسکو شام کے بحران کا تصفیہ کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔
استنبول میں قائم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ Edam کے سربراہ Sinan Ulgen کہتے ہیں’’ترکی نے یہ بات بھی سمجھ لی ہے کہ اگر روس اپنا موقف تبدیل نہیں کرتا، تو شام کے حالات میں تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے ۔ اگر روس اسد حکومت کی حمایت جاری رکھتا ہے، تو اسد کا اقتدار بر قرار رہے گا۔‘‘
اگرچہ ترک مبصرین کو توقع نہیں کہ روس فوری طور پر شام کی حمایت ختم کرے گا، لیکن اس قسم کی قیاس آرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں کہ روس نے شام کی حمایت سے دست کش ہونا شروع کر دیا ہے۔
ایک ترک عہدے دار نے کہا ہے کہ انقرہ ماسکوکی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ مستقبل میں شام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد یا سلامتی کونسل میں شام پر لگائی جانے والی پابندیوں کے معاملے میں نرم رویہ اختیار کرے۔ مستقل رکن کی حیثیت سے، روس نے تین بار شام کے صدر اسد کی حکومت کے خلاف سخت اقدام کو روکنے کے لیے ویٹو استعمال کیا ہے۔
اگرچہ شام کے بارے میں روس اور ترکی کے درمیان اختلافات باقی ہیں، لیکن دو طرفہ تجارت پر ان سے کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ استنبول کی قادر حاس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر سولی اووزل کہتےہیں کہ صدر پوتن کے دورے میں تجارت گفتگو کا اہم موضوع ہو گی۔
’’روسی پہلا نیوکلیئر ری ایکٹر تعمیر کر رہے ہیں ۔ وہ ایک اور نیوکلیئر ری ایکٹر تعمیر کرنا چاہتےہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان توانائی کے بہت سے مسائل موجود ہیں۔ لہٰذا ، دونوں کے درمیان بات چیت کے لیے بہت کچھ ہے۔‘‘
ایک ترک عہدے دار کے مطابق، صدر پوتن کے استنبول کے دورے میں، کم از کم نصف درجن دو طرفہ سمجھوتوں پر دستخط ہوں گے جن میں سے بیشتر کا تعلق تجارت سے ہو گا۔ سفارتی کالم نگار آئڈز کہتے ہیں کہ مسٹر پوتن کے دورے سے دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کا اظہار ہوتا ہے۔
’’اس دورے سے تعلقات میں تسلسل کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے تجارتی تعلقات کو اور زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لہٰذا امکانات اتنے زیادہ خراب معلوم نہیں دیتے، ہاں یہ ضرور ہے کہ معاملات کو قابو میں رکھنا پڑے گا کیوں کہ ظاہر ہے کہ روس شام کی پشت پناہی کر رہا ہے، اور ترکی اس پالیسی کے خلاف ہے۔‘‘
شام کے معاملے میں اپنے اختلافات کو دوسرے مسائل سے الگ رکھنا اس بات کی علامت ہے کہ دوطرفہ تعلقات کتنے مضبوط ہیں۔ توقع ہے کہ صدر پیوتن کے استنبول کے دورے سے یہ تعلقات مضبوط ہوتے رہیں گے۔