روس کے صدر ولا دمیر پوٹن نے اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما کو اگلے سال ماسکو کے دورے کی دعوت دی۔
ماسکو —
سرکاری سطح پر ایک سال تک امریکہ کی مخالفت کرنے کے بعد اب کریملن، اوباما انتظامیہ کے ساتھ اگلی چار سال کی مدت تک کام کرنے کے لیے پینترا بدلے گا ۔
روس کے صدر ولا دمیر پوٹن نے جمعے کے روز صدر براک اوباما کو اگلے سال ماسکو کے دورے کی دعوت دی۔
مسٹر پوٹن کی اس گرم جوشی کا موازنہ اس سرد مہری سے کیجیئے جس کا مظاہرہ انھوں نے چار سال قبل صدر اوباما کے پہلے انتخاب کے وقت کیا تھا ۔
اس وقت پورے یورپ کو اوباما نے مسحور کر رکھا تھا۔ لیکن کریملن کا رد عمل مختلف تھا۔ روس نے اعلان کیا کہ وہ ملک کے مغربی سرے پر، Kaliningrad میں میزائل نصب کرے گا۔
روسی پارلیمینٹ کے ایک رکن Alexander Romanovich نے جو خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی رکن ہیں، کہا کہ کریملن کو اطمینان ہوا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں تسلسل قائم رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ’’وہ کہہ رہے ہیں کہ روسی اور امریکی صدور اور روسی وزیرِ اعظم دمتری میدویدیف ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور گذشتہ چار سال کے اندر جو رابطے ہوئے ہیں ان کی بنیاد پر مزید پیش رفت ہو سکتی ہے۔‘‘
کریملن کی وسعت نظری کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ دونوں صدور کو اب 2016ء تک مل جل کر کام کرنا ہے۔ مسٹر اوباما کی صدارت کی چار سالہ مدت، مسٹر پوٹن کے چھ سالہ دورِ صدارت کے اندر ختم ہو گی۔
کریملن کو یقیناً اس بات پر اطمینان ہوا کہ ریپبلیکن امیدوار، مٹ رومنی کامیاب نہیں ہوئے۔ جب رومنی نے کہا کہ روس امریکہ کا سب سے بڑا geostrategic دشمن ہے، تو بہت سے روسیوں نے سوچا کہ رومنی کے خیالات سرد جنگ کے دور کے تسلسل میں ہیں۔
اوباما کی فتح کے اعلان کے چند گھنٹے بعد، وزیرِ اعظم میدویدیف نے کہا کہ رومنی کا اندازِ فکر پاگل پن پر مبنی ہے۔ رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اوباما کو سمجھنا آسان ہے اور وہ ایسے شراکت دار ہیں جنہیں سمجھنا آسان ہے۔
روسی پارلیمینٹ کے کریملن کے حامی رکن، Sergei Markov کہتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے امکانات بہت روشن ہیں کیوں کہ براک اوباما سرد جنگ کے زمانے کے گھسے پٹے خیالات کے قیدی نہیں ہیں۔ جدید دور کے بارے میں براک اوباما کھلا ذہن رکھتے ہیں۔ اور براک اوباما کی نظر میں نیا روس، جدید روس ہے ۔‘‘
تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات بڑی حد تک کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر قائم رہیں گے جیسا کہ جنوبی روس میں ایک ہوائی اڈے کے استعمال کے سلسلے میں ہو رہا ہے۔ امریکہ اس اڈے کو افغانستان سے سا زو سامان باہر بھیجنے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔
امریکہ ایک روسی کارگو کمپنی کو استعمال کرتا ہے اور ہوائی اڈے کی پٹی کو استعمال کرنے کے لیے جہازوں کو اتارنے کی فیس ادا کرتا ہے۔ گذشتہ سال روس کے سرکاری نشریاتی اداروں نے جتنا زیادہ امریکہ مخالف مواد نشر کیا ہے، اس کی وجہ سے اس قسم کا تعاون نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
ولا دمیر میلوو حکومت کے مخالف سیاسی کارکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف جو باتیں کہی جاتی ہیں، ان کا مقصد صدر پوٹن کی عوامی حمایت میں اضافہ کرنا ہے ۔ ان کے مطابق ’’سوویت دور کے بعد امریکہ پر تنقید کی یہ صورتِ حال بڑی عجیب و غریب ہے کیوں کہ اسی زمانے میں روس کے سرکاری حلقوں اور مغربی ملکوں کے درمیان تعلقات اور یکجہتی میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
صدر اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد، روس میں امریکہ کے سفیر مائیکل مکفاؤل نے انٹرویوز میں کہا ہے کہ دونوں ملک اقتصادی تعلقات بہتر بنانے پر زور دیں گے۔ اس سال، روس کو امریکہ کی برآمدات 10 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی، یعنی 10 سال پہلے کے مقابلے میں پانچ گنی ہو جائیں گی۔
روس اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کی بہتری میں ایک بڑی رکاوٹ میزائل کا وہ دفاعی نظام ہے جو امریکہ ایران کی میزائلوں سے یورپ کو محفوظ کرنے کے لیے قائم کرنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ یہ نظام اتنا چھوٹا ہوگا کہ اس سے روس کے میزائلوں کا زبردست ذخیرہ متاثر نہیں ہو گا۔ کریملن کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ کے میزائل کے دفاعی نظام اور اس کی ٹکنالوجی میں کسی بھی وقت روس اور امریکہ کے درمیان نیوکلیئر توازن کو ختم کرنے کے لیے وسعت دی جا سکتی ہے ۔
اب جب کہ دونوں صدور کو اگلے چار سال تک مل جل کر کام کرنا ہے، یہ سوال باقی ہے کہ کیا وہ گذشتہ چار سال کی بنیاد پر امریکہ اور روس کے درمیان زیادہ مفید اور نتیجہ خیز تعلقات قائم کر سکتےہیں؟
روس کے صدر ولا دمیر پوٹن نے جمعے کے روز صدر براک اوباما کو اگلے سال ماسکو کے دورے کی دعوت دی۔
مسٹر پوٹن کی اس گرم جوشی کا موازنہ اس سرد مہری سے کیجیئے جس کا مظاہرہ انھوں نے چار سال قبل صدر اوباما کے پہلے انتخاب کے وقت کیا تھا ۔
اس وقت پورے یورپ کو اوباما نے مسحور کر رکھا تھا۔ لیکن کریملن کا رد عمل مختلف تھا۔ روس نے اعلان کیا کہ وہ ملک کے مغربی سرے پر، Kaliningrad میں میزائل نصب کرے گا۔
روسی پارلیمینٹ کے ایک رکن Alexander Romanovich نے جو خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی رکن ہیں، کہا کہ کریملن کو اطمینان ہوا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں تسلسل قائم رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ’’وہ کہہ رہے ہیں کہ روسی اور امریکی صدور اور روسی وزیرِ اعظم دمتری میدویدیف ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور گذشتہ چار سال کے اندر جو رابطے ہوئے ہیں ان کی بنیاد پر مزید پیش رفت ہو سکتی ہے۔‘‘
کریملن کی وسعت نظری کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ دونوں صدور کو اب 2016ء تک مل جل کر کام کرنا ہے۔ مسٹر اوباما کی صدارت کی چار سالہ مدت، مسٹر پوٹن کے چھ سالہ دورِ صدارت کے اندر ختم ہو گی۔
کریملن کو یقیناً اس بات پر اطمینان ہوا کہ ریپبلیکن امیدوار، مٹ رومنی کامیاب نہیں ہوئے۔ جب رومنی نے کہا کہ روس امریکہ کا سب سے بڑا geostrategic دشمن ہے، تو بہت سے روسیوں نے سوچا کہ رومنی کے خیالات سرد جنگ کے دور کے تسلسل میں ہیں۔
اوباما کی فتح کے اعلان کے چند گھنٹے بعد، وزیرِ اعظم میدویدیف نے کہا کہ رومنی کا اندازِ فکر پاگل پن پر مبنی ہے۔ رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اوباما کو سمجھنا آسان ہے اور وہ ایسے شراکت دار ہیں جنہیں سمجھنا آسان ہے۔
روسی پارلیمینٹ کے کریملن کے حامی رکن، Sergei Markov کہتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے امکانات بہت روشن ہیں کیوں کہ براک اوباما سرد جنگ کے زمانے کے گھسے پٹے خیالات کے قیدی نہیں ہیں۔ جدید دور کے بارے میں براک اوباما کھلا ذہن رکھتے ہیں۔ اور براک اوباما کی نظر میں نیا روس، جدید روس ہے ۔‘‘
تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات بڑی حد تک کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر قائم رہیں گے جیسا کہ جنوبی روس میں ایک ہوائی اڈے کے استعمال کے سلسلے میں ہو رہا ہے۔ امریکہ اس اڈے کو افغانستان سے سا زو سامان باہر بھیجنے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔
امریکہ ایک روسی کارگو کمپنی کو استعمال کرتا ہے اور ہوائی اڈے کی پٹی کو استعمال کرنے کے لیے جہازوں کو اتارنے کی فیس ادا کرتا ہے۔ گذشتہ سال روس کے سرکاری نشریاتی اداروں نے جتنا زیادہ امریکہ مخالف مواد نشر کیا ہے، اس کی وجہ سے اس قسم کا تعاون نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
ولا دمیر میلوو حکومت کے مخالف سیاسی کارکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف جو باتیں کہی جاتی ہیں، ان کا مقصد صدر پوٹن کی عوامی حمایت میں اضافہ کرنا ہے ۔ ان کے مطابق ’’سوویت دور کے بعد امریکہ پر تنقید کی یہ صورتِ حال بڑی عجیب و غریب ہے کیوں کہ اسی زمانے میں روس کے سرکاری حلقوں اور مغربی ملکوں کے درمیان تعلقات اور یکجہتی میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
صدر اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد، روس میں امریکہ کے سفیر مائیکل مکفاؤل نے انٹرویوز میں کہا ہے کہ دونوں ملک اقتصادی تعلقات بہتر بنانے پر زور دیں گے۔ اس سال، روس کو امریکہ کی برآمدات 10 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی، یعنی 10 سال پہلے کے مقابلے میں پانچ گنی ہو جائیں گی۔
روس اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کی بہتری میں ایک بڑی رکاوٹ میزائل کا وہ دفاعی نظام ہے جو امریکہ ایران کی میزائلوں سے یورپ کو محفوظ کرنے کے لیے قائم کرنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ یہ نظام اتنا چھوٹا ہوگا کہ اس سے روس کے میزائلوں کا زبردست ذخیرہ متاثر نہیں ہو گا۔ کریملن کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ کے میزائل کے دفاعی نظام اور اس کی ٹکنالوجی میں کسی بھی وقت روس اور امریکہ کے درمیان نیوکلیئر توازن کو ختم کرنے کے لیے وسعت دی جا سکتی ہے ۔
اب جب کہ دونوں صدور کو اگلے چار سال تک مل جل کر کام کرنا ہے، یہ سوال باقی ہے کہ کیا وہ گذشتہ چار سال کی بنیاد پر امریکہ اور روس کے درمیان زیادہ مفید اور نتیجہ خیز تعلقات قائم کر سکتےہیں؟