روس کی یہ دھمکی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یوکرین کے سکیورٹی اہلکاروں نے ملک کے مشرقی علاقے میں سرکاری تنصیبات پر قابض مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔
واشنگٹن —
روس نے دھمکی دی ہے کہ اگر یوکرین کی حکومت نے روس نواز مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا تو ماسکو حکومت تنازع کے حل کے لیے رواں ہفتے ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا بائیکاٹ کردےگی۔
روس کی یہ دھمکی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یوکرین کے سکیورٹی اہلکاروں نے ملک کے مشرقی علاقے میں سرکاری تنصیبات پر قابض مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ یوکرین نے اپنے فوجی دستے ہوائی جہازوں کے ذریعے ملک کے مشرقی علاقے کے ان 10 میں کم از کم دو قصبوں کے نزدیک اتار دیے ہیں جہاں لگ بھگ دو ہفتے قبل روس نواز مظاہرین نے حکومتی تنصیبات پر قبضہ کرکے سرکاری عمل داری کا خاتمہ کردیا تھا۔
یوکرین کی حکومت نے علیحدگی پسند مظاہرین کے خلاف اس کارروائی کو "دہشت گردوں کے خلاف آپریشن" قرار دیا ہے۔
یوکرین کی جانب مظاہرین کے خلاف کارروائی کے آغاز کی اطلاعات کے بعد روس نے سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے یوکرینی حکام کو مظاہرین کےخلاف طاقت استعمال کرنے سے باز رہنے کا انتباہ دیا ہے۔
منگل کو چین کے مختصر دورے کے دوران بیجنگ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے کہا کہ فوجی کارروائی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کی جانب سے فوجی کارروائی کے آغاز نے جنیوا میں ہونے والے چار فریقی مذاکرات کی افادیت کو ختم کردیا ہے۔
بیجنگ میں چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی وزیرِ خارجہ نے واضح کیا کہ اگر یوکرین نے روس نواز مظاہرین کےخلاف کارروائی جاری رکھی تو ماسکو حکومت مذاکرات میں شریک نہیں ہوگی۔
جمعرات کو ہونے والے مذاکرات میں روس، امریکہ، یورپی یونین اور یوکرین کے نمائندے شریک ہوں گے تاکہ گزشتہ ماہ شروع ہونے والے یوکرین کے سیاسی بحران اور اس میں روس کی فوجی مداخلت سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا حل تلاش کیا جاسکے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیرِ خارجہ نے چار فریقی مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے تنازع کے حل کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔
سرجئی لاوروف نے اپنے دورے کے دوران چین کے صدر ژی جن پنگ کے ساتھ بھی ملاقات کی۔
ملاقات کےبعد چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی وزیر کے ساتھ ملاقات میں صدر جن پنگ نے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کو فرغ دینے پر زور دیا اور اسے دنیا میں امن اور استحکام کے فروغ کا سبب گردانا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یوکرین کے سیاسی بحران کے باعث جہاں ایک جانب روس اور امریکہ اور مغربی ممالک کے تعلقات دوبارہ سرد جنگ کے دور میں پہنچ گئے ہیں تو وہیں ماسکو اور بیجنگ کے درمیان تعلقات میں نمایاں گرم جوشی دیکھنے میں آرہی ہے۔
روس کی یہ دھمکی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یوکرین کے سکیورٹی اہلکاروں نے ملک کے مشرقی علاقے میں سرکاری تنصیبات پر قابض مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ یوکرین نے اپنے فوجی دستے ہوائی جہازوں کے ذریعے ملک کے مشرقی علاقے کے ان 10 میں کم از کم دو قصبوں کے نزدیک اتار دیے ہیں جہاں لگ بھگ دو ہفتے قبل روس نواز مظاہرین نے حکومتی تنصیبات پر قبضہ کرکے سرکاری عمل داری کا خاتمہ کردیا تھا۔
یوکرین کی حکومت نے علیحدگی پسند مظاہرین کے خلاف اس کارروائی کو "دہشت گردوں کے خلاف آپریشن" قرار دیا ہے۔
یوکرین کی جانب مظاہرین کے خلاف کارروائی کے آغاز کی اطلاعات کے بعد روس نے سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے یوکرینی حکام کو مظاہرین کےخلاف طاقت استعمال کرنے سے باز رہنے کا انتباہ دیا ہے۔
منگل کو چین کے مختصر دورے کے دوران بیجنگ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے کہا کہ فوجی کارروائی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کی جانب سے فوجی کارروائی کے آغاز نے جنیوا میں ہونے والے چار فریقی مذاکرات کی افادیت کو ختم کردیا ہے۔
بیجنگ میں چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی وزیرِ خارجہ نے واضح کیا کہ اگر یوکرین نے روس نواز مظاہرین کےخلاف کارروائی جاری رکھی تو ماسکو حکومت مذاکرات میں شریک نہیں ہوگی۔
جمعرات کو ہونے والے مذاکرات میں روس، امریکہ، یورپی یونین اور یوکرین کے نمائندے شریک ہوں گے تاکہ گزشتہ ماہ شروع ہونے والے یوکرین کے سیاسی بحران اور اس میں روس کی فوجی مداخلت سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا حل تلاش کیا جاسکے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیرِ خارجہ نے چار فریقی مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے تنازع کے حل کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔
سرجئی لاوروف نے اپنے دورے کے دوران چین کے صدر ژی جن پنگ کے ساتھ بھی ملاقات کی۔
ملاقات کےبعد چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی وزیر کے ساتھ ملاقات میں صدر جن پنگ نے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کو فرغ دینے پر زور دیا اور اسے دنیا میں امن اور استحکام کے فروغ کا سبب گردانا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یوکرین کے سیاسی بحران کے باعث جہاں ایک جانب روس اور امریکہ اور مغربی ممالک کے تعلقات دوبارہ سرد جنگ کے دور میں پہنچ گئے ہیں تو وہیں ماسکو اور بیجنگ کے درمیان تعلقات میں نمایاں گرم جوشی دیکھنے میں آرہی ہے۔