ایک روسی جج نے منگل کواپنے فیصؒلے میں کہا ہے کہ جاسوسی کے الزام میں قید امریکی صحافی ایوین گیرشکووچ کو جیل میں ہی رہنا ہوگا ۔اس کا کیس کریملن کے اس کریک ڈاؤن کا حصہ ہے،جو وہ یوکرین کی جنگ کے دوران اختلاف رائے رکھنے والوں اور آزادی صحافت کے خلاف کر رہا ہے
گرشکو وچ ہفتوں میں پہلی بار عوام کے سامنے آیا ۔، وال اسٹریٹ جرنل کا 31 سالہ رپورٹر ماسکو سٹی کورٹ میں مدعا علیہ کےلیے بنائے گئے شیشے کے پنجرے میں کھڑا تھا۔ اس نے نیلی جینز اور نیوی بلیو گنگھم چیک شدہ شرٹ پہن رکھی تھی۔کبھی وہ بازوؤں کو جوڑ لیتا تھا۔ کبھی اپنے وکلاء کے ساتھ بات کرتا تھا اور کبھی کبھار وہ ،کمرہ عدالت میں کچھا کھچ بھرے صحافیوں کو دیکھ کر مسکراتا اور ہاتھ ہلاتا تھا۔
سرد جنگ کے بعد سے گیرشکووچ پہلا امریکی رپورٹر ہے جسے روس نے جاسوسی کے الزام میں قید میں رکھا ہے ۔لیکن اس کی گرفتاری پر ملک کے صحافی سخت مشتعل ہیں اور مغرب میں بھی غم و غصے کا اظہار کیاجا رہا ہے ۔گیرشکو وچ ، اس کے اخبار کا مالک اور امریکی حکومت نے اس الزام سے انکار کیا ہے کہ وہ جاسوسی میں ملوث تھا اور اس کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
وال سٹریٹ جرنل کا کہنا تھا کہ ایوین گیرشکو وچ ، آزاد پریس کا ایک رکن ہے جو اپنی گرفتار ی سے پہلے تک خبروں کی تلاش میں رہتا تھا۔ اخبار کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اس پر سب الزام تراشی غلط ہے ۔ امریکہ نے پچھلے ہفتے باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ گیرشکووچ کو غلط طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔
روس کی فیڈرل سیکیورٹی سروس نے 29 مارچ کو یکاترین برگ کے شہر یورال ماؤنٹینز سے گیرشکووچ کو گرفتار کیا تھا اور اس پر روسی اسلحہ ساز فیکٹری کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا۔
گیرشکووچ نے اپیل کی تھی کہ اسے مقدمے سے قبل حراست میں نہ رکھا جائے لیکن جج نے اپیل مسترد کرتے ہوئے، فیصلہ دیا کہ انہیں کم از کم 29 مئی تک جیل میں ہی رہنا ہو گا ۔ صحافی کے وکلاء کا کہنا تھا کہ انہوں نے درخواست کی تھی کہ گیرشکووچ کو گھر میں نظربندی یا 50 ملین روبل (تقریباً 610,000 ڈالر) کی ضمانت پر رہا ئی کی اجازت دی جائے ،لیکن یہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔
جرنل اور اس کے پبلشر ڈاؤ جونز نے گیرشکووچ کی حراست کو برقرار رکھنے والے فیصلے کو ،مایوس کن،قرار دیا۔
جرم ثابت ہونے پر گیرشکووچ کو 20 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس کی وکیل تاتیانا نوزکینا نے منگل کی سماعت کے بعد کہا کہ گیرشکووچ تازہ دم تھے، انہیں کوئی طبی شکایت نہیں تھی اور وہ لیو ٹالسٹائی کی،وار اینڈ پیس، سمیت بہت سی کتابیں پڑھ چکے ہیں اور ہلکی پھلکی ورزش کر رہے ہیں۔ تاتیانا نے بتایا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے اور میڈیا کی آزادی کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گیرشکووچ کو اپنے والدین اور حامیوں کے خطوط موصول ہوئے ہیں، لیکن اب تک انہیں کسی فون کال کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے وکلاء کو یہ بھی بتایا کہ وہ آزاد ہونے پر اس آزمائش پر ایک کتاب لکھنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
یہ کیس ایسے میں سامنے آیا ہے جب یوکرین پر حملے کے بعد، ماسکو اور مغرب کے درمیان شدید تناؤ ہے اور جب کریملن ،اپوزیشن کارکنوں، آزاد صحافیوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں کو دبانے کی کارروائیاں تیز کر رہا ہے۔
امریکہ ماسکو پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ امریکی قونصلر کو گیرشکووچ تک رسائی فراہم کرے۔ منگل کی سماعت میں شرکت کرنے والی امریکی سفیر لین ٹریسی نے ایک دن پہلے کہا تھا کہ وہ جیل میں گرشکووچ سے مل چکی ہیں۔انہوں نے گیرشکووچ کی فوری رہائی کے لیے امریکی مطالبے کا اعادہ کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے گیرشکووچ کے والدین سے بات کی اورگیرشکووچ کو حراست میں رکھنے کی ایک بار پھر مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ ،ہم یہ واضح کر رہے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ مکمل طور پر غیر قانونی ہے، اور ہم نے اس کا اعلان بھی کیا ہے۔
ایک اعلیٰ روسی سفارت کار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ روس امریکہ کے ساتھ ممکنہ قیدیوں کے تبادلے پر بات کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے جس میں گیرشکووچ بھی شامل ہے ۔ لیکن اس کے مقدمے کی سماعت کے بعد۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی تبادلے کا جلد امکان نہیں ہے۔
خبر کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے