روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے کہا ہے کہ یوکرین کا بحران شروع ہونے کے بعد امریکہ اور روس کے تعلقات ابتری کا شکار ہیں جن کے جلد معمول پر آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
پیر کو ماسکو میں وزارتِ خارجہ کے دفتر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سرجئی لاوروف نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
لیکن انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں درآنے والی حالیہ خرابی جلد دور ہوجائے گی اور تعلقات دوبارہ بہتر ہوجائیں گے۔
روسی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ اور روس کے درمیان حالیہ کشیدگی کسی نئی سرد جنگ کا آغاز نہیں ہے لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی کا دورانیہ طویل ہوسکتا ہے۔
رواں سال مارچ میں روس کی جانب سے یوکرین کے علاقے کرائمیا پر زبردستی قبضے اور یوکرین میں جاری سیاسی بحران میں مسلسل مداخلت کے باعث امریکہ اور روس کے تعلقات میں سخت کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔
روس امریکہ اور مغربی ملکوں کے اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ وہ یوکرین میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے برعکس ماسکو حکومت کا شکوہ ہے کہ مغربی ملک یوکرین میں روس نواز حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں شریک تھے اور اب وہاں روس مخالف جذبات کو فروغ دے رہے ہیں۔
اس سیاسی تنازع کے باعث امریکہ اور یورپی یونین نے روس پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی ہیں جن کے جواب میں روس نے یورپی ملکوں اور امریکہ سے درآمدات معطل کردی ہیں۔
سرجئی لاوروف کا یہ بیان روسی اور یوکرینی وزرائے توانائی کے درمیان منگل کو برسلز میں ہونے والی ملاقات سے ایک روز قبل سامنے آیا ہے جسے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بہتری کے آثار کی علامت قرار دیا جارہا ہے۔
اس ملاقات میں دونوں ملک یوکرین کو روسی گیس کی فراہمی بحال کرنے اور یوکرین کے ذمے واجب الادا رقم کی ادائیگی کے طریقۂ کار پر بات کریں گے۔
اس تنازع پر ابتدائی بات چیت جمعے کو روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور ان کے یوکرینی ہم منصب پیٹرو پوروشینکو کے درمیان اٹلی کے شہر میلان میں ہونےو الی ملاقات میں ہوئی تھی۔
ملاقات کے بعد روسی صدر نے کہا تھا کہ روسی گیس کی قیمت کی مد میں یوکرین کے ذمے ساڑھے چار ارب ڈالر واجب الادا ہیں جب کہ اس سے قبل روس کی سرکاری گیس کمپنی یہ رقم پانچ ارب 30 کروڑ ڈالر بیان کرتی رہی ہے۔
منگل کو دونوں ملکوں کے وزرائے توانائی کے درمیان ہونے والی بات چیت میں یورپی یونین کے انرجی کمشنر گنتھر اوٹنگر ثالث کا کردار ادا کریں گے۔
یورپی یونین اس تنازع کے حل میں خاصی دلچسپی لے رہی ہے کیوں کہ یورپ کو ملنے والی روسی گیس کا نصف یوکرین کے راستے یورپ پہنچتا ہے۔
یورپی ممالک کی خواہش ہے کہ یورپ میں سردی کے آغاز سے قبل ہی یہ تنازع طے پاجائے تاکہ سرد موسم میں گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی ہوسکے۔