روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق 'ایس- 300' میزائلوں پر مشتمل فضائی دفاعی نظام کی شام کو فراہمی ستمبر سے قبل ممکن نہیں۔
واشنگٹن —
روسی ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ روس نے تاحال شام کو طیارہ شکن میزائل فراہم نہیں کیے ہیں اور نہ ہی ان کی جلد فراہمی کا کوئی امکان ہے۔
روسی اسلحے کی صنعت سے منسلک ایک ذریعے نے خبر رساں ادارے 'انٹر فیکس' کو بتایا ہے کہ 'ایس- 300' میزائلوں پر مشتمل فضائی دفاعی نظام کی شام کو فراہمی ستمبر سے قبل ممکن نہیں۔
اس سے قبل جمعرات کو شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے ایک بیان میں روس سے مذکورہ دفاعی نظام ملنے کا اشارہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل نے شام پر مستقبل میں کسی حملے کی جرات کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
جمعرات کو لبنانی ٹی وی 'المنار' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں صدر اسد نے روسی ہتھیاروں کی کھیپ ملنے کے بارے میں مبہم موقف اختیار کیا تھا جس نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا کہ شام کو ہتھیاروں کی یہ کھیپ موصول ہوگئی ہے۔
اپنے انٹرویو میں صدر اسد نے کہا تھا کہ روس کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں میں سےبعض پر حال ہی میں عمل درآمد کیا جاچکا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں روس نے اعلان کیا تھا کہ وہ شام کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت دمشق حکومت کو فضائی دفاعی نظام فروخت کرے گا جس سے، روسی حکام کے بقول، شام میں بیرونی فوجی مداخلت کا راستہ روکنے میں مدد ملے گی۔
اسرائیل نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ مجوزہ روسی ہتھیاروں کی شام کو فراہمی ہر صورت روکے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شام کو روسی ساختہ 'ایس -300' میزائل ملنے کی صورت میں اسرائیل کا اہم ترین شہری فضائی اڈہ ان میزائلوں کی رینج میں ہوگا جسے اسرائیل اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
اسرائیلی طیاروں نے رواں ماہ کے آغاز میں بھی دمشق کے نزدیک ایک قافلے پر بمباری کی تھی جو اسرائیلی حکام کے بقول شامی صدر کی اتحادی لبنانی تنظیم 'حزب اللہ' کے لیے ہتھیار لے جارہا تھا۔
روسی اسلحے کی صنعت سے منسلک ایک ذریعے نے خبر رساں ادارے 'انٹر فیکس' کو بتایا ہے کہ 'ایس- 300' میزائلوں پر مشتمل فضائی دفاعی نظام کی شام کو فراہمی ستمبر سے قبل ممکن نہیں۔
اس سے قبل جمعرات کو شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے ایک بیان میں روس سے مذکورہ دفاعی نظام ملنے کا اشارہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل نے شام پر مستقبل میں کسی حملے کی جرات کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
جمعرات کو لبنانی ٹی وی 'المنار' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں صدر اسد نے روسی ہتھیاروں کی کھیپ ملنے کے بارے میں مبہم موقف اختیار کیا تھا جس نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا کہ شام کو ہتھیاروں کی یہ کھیپ موصول ہوگئی ہے۔
اپنے انٹرویو میں صدر اسد نے کہا تھا کہ روس کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں میں سےبعض پر حال ہی میں عمل درآمد کیا جاچکا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں روس نے اعلان کیا تھا کہ وہ شام کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت دمشق حکومت کو فضائی دفاعی نظام فروخت کرے گا جس سے، روسی حکام کے بقول، شام میں بیرونی فوجی مداخلت کا راستہ روکنے میں مدد ملے گی۔
اسرائیل نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ مجوزہ روسی ہتھیاروں کی شام کو فراہمی ہر صورت روکے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شام کو روسی ساختہ 'ایس -300' میزائل ملنے کی صورت میں اسرائیل کا اہم ترین شہری فضائی اڈہ ان میزائلوں کی رینج میں ہوگا جسے اسرائیل اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
اسرائیلی طیاروں نے رواں ماہ کے آغاز میں بھی دمشق کے نزدیک ایک قافلے پر بمباری کی تھی جو اسرائیلی حکام کے بقول شامی صدر کی اتحادی لبنانی تنظیم 'حزب اللہ' کے لیے ہتھیار لے جارہا تھا۔