ایک بس ڈرائیور کا بیٹا، صادق خان جمعہ کے روز لندن کا پہلا مسلمان میئر بن گیا۔
اُنھوں نے کنزرویٹو پارٹی کے چیلنجر کا مقابلہ کیا جنھوں نے اُن پر انتہاپسندی کا الزام لگایا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے، رائیٹرز نے خبر دی ہے کہ میدان میں 12 امیدوار تھے۔ صادق خان کا مقابلہ کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے سرکردہ امیدوار، زیک گولڈ اسمتھ سے تھا، جو یہودی ہیں، جن کے والد ایک ارب پتی ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران، الزام لگایا گیا کہ صادق خان سلیمان غنی سے ہمدردی رکھتے ہیں، جنھیں برطانوی رہنما، جن میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی شامل ہیں، اسلامی انتہا پسند خیال کرتے ہیں۔
برطانوی ذرائع ابلاغ کی خبروں کےمطابق انتخابی نتائج کے اعداد و شمار ظاہر کر رہے ہیں کہ صادق خان اپنےحریف ٹوری جماعت کے امیدوار زیک گولڈ اسمتھ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جس کے ساتھ داراحکومت لندن میں کنزرویٹیو کے آٹھ سالہ میئر شپ کا دور ختم ہوگیا ہے۔ وہ میئر کی حیثیت سے بورس جانسن کی جگہ سنبھال لیں گے۔
لندن کے علاقے ٹوٹنگ سے منتخب ایم پی، صادق خان کو قدامت پسند جماعت کے مضبوط امیدوار زیک گولڈ اسمتھ کی منفی انتخابی مہم کا سامنا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نتائج نے صادق خان کے لیے بڑی سوئنگ ظاہر کی ہے، جس کے مطابق، صادق خان 44.2 فیصد ووٹوں کے ساتھ زیک گولڈ اسمتھ سے آگے ہیں جنھوں نے 35 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔
لندن میئر کے انتخاب کے لیے ووٹرز سے ان کی پہلی اور دوسری ترجیح پوچھی گئی تھی۔ اسکائی نیوز کے مطابق، میئر کے لیے پہلی ترجیح کے ووٹوں کی تقسیم سے پتا چلتا ہے کہ صادق خان زیک گولڈ اسمتھ سے خاصے آگے نکل چکے تھے۔ جبکہ دوسری ترجیح کے امیدواروں کے ووٹوں کی تقسیم جو ان دونوں امیدواروں میں تقسیم کئے گئے ہیں اس کے بعد بھی صادق خان کو اپنے حریف سیاست دان کے مقابلے میں سبقت حاصل ہے.
ذرائع کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے ناممکن ہے کہ زیک گولڈ اسمتھ صادق خان کو اب ہرا سکیں۔
لندن سمیت ملک بھر میں جمعرات کو مقامی کونسلوں اور لندن میئر کے لیے صبح سات بجے سے رات دس بجے تک ووٹنگ کا سلسلہ جاری رہا، جبکہ ووٹوں کی تصدیق کا عمل اب بھی جاری ہے۔
صادق خان کے ایک ذرائع نے روزنامہ ’گارڈین‘ کو بتای کہ میئر کے مقابلے میں لیبر کی فتح کو صادق خان کی فتح کے طور پر دیکھا جائے گا ناکہ لیبر پارٹی کے قائد جیریمی کوربن کی۔ اس سے قبل صادق خان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بیلٹ پیپر پر جیریمی کوربن کا نام نہیں ہوگا اور ناہی ڈیوڈ کیمرون یا بورس جانسن کا بلکہ یہ صادق خان اور زیک گولڈ اسمتھ کے درمیان براہ راست جنگ ہے اور ہم پر امید ہیں۔
ادھر بورس جانسن نے داراحکومت لندن کے میئر کی حیثیت سے اپنے عہدے کی معیاد ختم ہونے پر لندن میئر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اپنا آخری پیغام جاری کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ '’یہ سٹی ہال سے رخصت ہونے کا وقت ہے۔ یہ میرا استحقاق ہے کہ میں آپ کا مئیر رہا ہوں۔''
وائس آف امریکہ کے نمائندے، لوئی رمریز نے لندن سے اپنی خبر مین کہا ہے کہ صادق خان کی جیت کو برطانوی مسلمان ’’ایک تاریخی لمحہ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
محمد لال میاں ایک ریستوران کے سابق مالک ہیں۔ جمعرات کی ووٹنگ کے بعد اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’جب ہم پہلی بار یہاں پہنچے، یہاں پر کوئی مسجد بھی نہیں تھی۔ ہم گھر کی نچلی منزل پر ہی نماز ادا کیا کرتے تھے‘‘۔
لال میاں برطانوی راج میں پیدا ہوئے، جو اب پاکستان کا علاقہ ہے۔ وہ 55 برس قبل برطانیہ آئے۔ اُنھوں نے اپنی زندگی میں بڑی کایا پلٹ دیکھی۔ وہ کہتے کہ اب تو برطانیہ میں بہت ساری مساجد ہیں۔ حکومتِ برطانیہ کے مطابق، ملک میں تقریباً 1850 مساجد ہیں۔
لال میاں نے بتایا کہ صادق خان کے میئر بننے سے ہمیں زیادہ مساجد اور مسلمانوں کے لیے دیگر ادارے بنانے کی اجازت ملے گی۔ بقول اُن کے، ’’مسلمانوں کے لیے یہ ایک بڑا موقع ہوگا۔ مجھےخوشی ہے کہ میں برطانیہ آیا۔ یہاں آپ کو ہر قسم کا موقع ملتا ہے‘‘۔
ایک ووٹر جنھوں نے اپنا نام مسلم بتایا، ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’یہ نہ صرف میرے لیے، بلکہ تمام برطانوی مسلمانوں کے لیے ایک اہم دِن ہے۔۔۔ یقینی طور پر یہ ایک تاریخی دِن ہے۔ دراصل، یہ ایک نئی تاریخ کی ابتدا ہے‘‘۔