ساحر لدھیانوی اور فلمی دنیا

ساحر لدھیانوی اور فلمی دنیا

ساحر لدھیانوی کے بارے میں میرا دعویٰ ہے کہ وہ اردو کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر آپ پاکستان میں کتابوں کی کسی بھی دکان پر چلے جائیں تو وہاں آپ کو ساحر کی ’تلخیاں‘ کی کئی ایڈیشن نظر آ جائیں گے۔ راولپنڈی کے صدر بازار میں اتوار کے دن پرانی کتابوں کا میلہ لگتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہاں چہل قدمی کرتے ہوئے اگر آپ ’تلخیاں‘ کے ایڈیشن گنتے جائیں تو کم از کم دو درجن مختلف کتابیں ہاتھ آ ہی جائیں گی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ساحر کی اس بے پناہ مقبولیت کا راز کیا ہے؟ ترقی پسندی؟ لیکن ترقی پسند تو اور شعرا بھی تھے۔ فلمی شاعری؟ لیکن فلموں کے لیے تو بہت سوں نے لکھا ہے، بلکہ کئی ترقی پسندوں نے بھی فلموں کے نغمے لکھے ہیں، جن میں مجروح سلطان پوری، مجاز، قتیل شفائی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی وغیرہ شامل ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ساحر کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان کی شاعری بیک وقت عوامی ادبی تھی، یا یوں کہیے کہ وہ ادبی شاعری کو عوام تک لے کر آ گئے اور ساتھ ہی ساتھ فن کارانہ اصولوں کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیا۔
میرا موضوع چوں کہ ساحر کی فلمی شاعری ہے، اس لیے میں اس بحث کو فلمی شاعری ہی کے دائرے میں رکھوں گا۔

جب لاہور میں ساحر کے وارنٹ گرفتاری نکل گئے تو ان کے پاس ہندوستان واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ہندوستان میں وہ سیدھے بمبئی میں وارد ہوئے۔ ان کا قول مشہور ہے کہ بمبئی کو میری ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں ساحر اور دوسرے ترقی پسند شعرا نے بھانپ لیا تھا کہ فلم ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے اپنی بات عوام تک جس قوت اور شدت سے پہنچائی جا سکتی ہے، وہ کسی اور میڈیم میں ممکن نہیں ہے۔ چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساحر ایک مشن کے تحت بمبئی گئے تھے۔ اگرچہ 1949ء میں ان کی پہلی فلم ’آزادی کی راہ پر‘ قابلِ اعتنا نہ ٹھہری، لیکن موسیقار سچن دیو برمن کے ساتھ 1950ء میں فلم ’نوجوان‘ میں ان کے لکھے ہوئے نغموں کو ایسی مقبولیت نصیب ہوئی کہ آپ آج بھی آل انڈیا ریڈیو سے انھیں سن سکتے ہیں۔

ان میں سے ایک گانے ’ٹھنڈی ہوائیں‘ کی دھن تو ایسی ہٹ ہوئی کہ عرصے تک اس کی نقل ہوتی رہی۔ پہلے تو موسیقار روشن نے 1954ء میں فلم ’چاندنی چوک‘ میں اس دھن پر ہاتھ صاف کیا، پھر اس سے تسلی نہ ہوئی تو 1960ء میں ’ممتا‘ فلم میں اسی طرز میں ایک اور گانا بنا ڈالا۔ جب دوسروں کا یہ حال ہو تو بیٹا کسی سے کیوں پیچھے رہتا، چناں چہ آر ڈی برمن نے 1970ء میں ’ٹھنڈی ہوائیں‘ سے استفادہ کرتے ہوئے ایک اور گانا بنا ڈالا۔

خیر بات ہو رہی تھی ساحر کی فلم ’نوجوان‘ کے گیتوں کی مقبولیت کی۔ اس کے بعد ایس ڈی برمن اور ساحر کی شراکت پکی ہو گئی اور اس جوڑی نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں کام کیا جو آج بھی یادگار ہے۔ ان فلموں میں ’بازی‘، ’جال‘، ’ٹیکسی ڈرائیور‘، ’ہاؤس نمبر 44‘، ’منیم جی‘ اور ’پیاسا‘ وغیرہ شامل ہیں۔

ساحر کی دوسری سب سے تخلیقی شراکت روشن کے ساتھ تھی اور ان دونوں نے ’چتر لیکھا‘، "بہو بیگم"، "دل ہی تو ہے"، "برسات کی رات"، "تاج محل"، "بابر"اور "بھیگی رات" جیسی فلموں میں جادو جگایا۔ روشن اور ایس ڈی برمن کے علاوہ ساحر نے او پی نیر، این دتا، خیام، روی، مدن موہن، جے دیو اور کئی دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، ساحر کے علاوہ بھی کئی اچھے شاعروں نے فلمی دنیا میں نغمے بکھیرے، لیکن ساحر کے علاوہ کسی اور کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ اور اس کی بنیادی وجہ وہی ہے جو ان کی ادبی شاعری کی مقبولیت کی ہے، یعنی شاعری عوامی لیکن ادبی تقاضوں کی مدِ نظر رکھتے ہوئے۔

ایک زمانے میں اردو ادب میں ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بڑی بحثیں چلی تھیں۔ ترقی پسند شاعر ادب برائے زندگی کے قائل تھے اور وہ شاعری کے ذریعے معاشرے میں انقلاب بپا کرنا چاہتے تھے۔ ترقی پسند شعرا کی جوق در جوق فلمی دنیا سے وابستگی ان کی عوام تک پہنچنے کی اسی خواہش کی آئینہ دار تھی۔

یہی وجہ تھی کہ ساحر فلمی دنیا میں اپنی آئیڈیالوجی ساتھ لے کر آئے، اور دوسرے ترقی پسند نغمہ نگاروں کے مقابلے میں انھیں اپنی آئیڈیالوجی کو عوام تک پہنچانے کے مواقع بھی زیادہ ملے، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انھوں نے جن فلم سازوں کے ساتھ زیادہ کام کیا وہ خود ترقی پسندانہ خیالات کے مالک تھے۔ اس سلسلے میں گرودت، بی آر چوپڑا اور یش راج چوپڑا کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ یہ بات ایک مثال سے واضح ہو جائے گی:

جب ساحر ’جرم و سزا‘ پر مبنی رمیش سیگل کی فلم ’پھر صبح ہو گی‘ کے گیت لکھ ہے تھے تو انھوں نے شرط رکھی کہ فلم کی موسیقی وہی ترتیب دے گا جس نے دوستویفسکی کا ناول پڑھ رکھا ہو۔ اگرچہ سیگل شنکر جے کشن کو لینا چاہتے تھے، لیکن ساحر کی شرط پر صرف خیام پورا اترے۔ چناں چہ ساحر نے اس فلم کے لیے وہ نغمے لکھے جو فلمی کہانی میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ ساحر کے ایجنڈے پر بھی پورا اترتے ہیں:

چین و عرب ہمارا
ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے
سارا جہاں ہمارا
جتنی بھی بلڈنگیں تھیں
سیٹھوں نے بانٹ لی ہیں
فٹ پاتھ بمبئی کے
ہیں آشیاں ہمارا

اسی فلم کے دوسرے نغمے بھی ساحر کے نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں، جیسے ’آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم‘، اور ’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘، وغیرہ۔

اس فلم کے گانوں میں ہم ایک خاص بات دیکھتے ہیں کہ اس سے پہلے عام طور پر اردو شاعر ایک ایسے مجنوں کا تصور باندھتا تھا جو دشت و بیاباں میں سر پہ ہجومِ دردِ غریبی سے خاک ڈالتا نظر آتا تھا، ساحر نے اس فلم کے گیتوں میں شہری مجنوں کا نقشہ باندھا ہے، جو میرے خیال سے کم از کم فلمی شاعری کی حد تک نئی چیز تھی۔

ساحر کے فلمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتانا لازمی ہے کہ ساحر ہمیشہ گیت کے بولوں کو اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ گردانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ’پیاسا‘ کے بعد ساحراور ایس ڈی برمن کی جوڑی ٹوٹ گئی کیوں کہ ساحر سمجھتے تھے کہ نغموں کی کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ ان کا ہے اور وہ چاہتے تھے کہ ان کا معاوضہ موسیقار سے زیادہ ہو۔

ظاہر ہے کہ اس کڑی شرط کے بعد ساحر کا اے گریڈ موسیقاروں کے ساتھ کام کرنا ممکن نہ رہا۔ چناں چہ ساحر کو بی گریڈ موسیقاروں پر اکتفا کرنا پڑی، جن میں خیام کے علاوہ روی، این دتا اور جے دیو شامل ہیں۔ اور ان درجہ دوم کے موسیقاروں کےساتھ بھی ساحر نے کئی لافانی نغمے تخلیق کیے، جیسے روی کے ساتھ ’چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں،‘ ’ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی‘، ’نیلے گگن کے تلے‘، ’چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو‘، وغیرہ، این دتا کے ساتھ ’میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی‘، ’میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں‘ اور ’دامن میں داغ لگا بیٹھے‘، وغیرہ اور جے دیو کے ساتھ ’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں‘، ’میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا‘، ‘رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی‘ وغیرہ شامل ہیں۔

پیاسا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی کہانی ساحر کی زندگی سے ماخوذ ہے

ساحر اور مجروح سلطان پوری کا نام اکثر ساتھ ساتھ لیا جاتا ہے، لیکن میرے خیال سے دونوں شعرا کا پس منظر ایک جیسا ہونے کے باوجود ساحر مجروح سے کہیں بہتر فلمی شاعر تھے۔ مجروح کی فلمی نغمہ نگاری اکثر کھوکھلی نظر آتی ہے اور وہ شاعری کے ادبی پہلو سے مکمل انصاف نہیں کر پاتے۔ جو کام ساحر بہت سہولت سے کر گزرتے ہیں، وہاں اکثر مجروح کی سانس اکھڑنے لگتی ہے۔ مجروح کی فلمی بولوں کی ایک نمایاں بات یہ ہے کہ وہ سننے میں بہت بھلے لگتے ہیں لیکن جوں ہی کاغذ پر لکھے جائیں، ان میں عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر مجروح کا فلم ’ممتا‘ کے لیے لکھا ہوا ایک انتہائی خوب صورت گیت ہے:

رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے، بن کے کلی، بن کے صبا، باغِ وفا میں

(برسبیلِ تذکرہ عرض کرتا چلوں کہ یہ وہی نغمہ ہے جس کی دھن موسیقار روشن نے ساحر اور ایس ڈی برمن کی فلم نوجوان کے گانے ’ٹھنڈی ہوائیں‘ سے مستعار لی تھی)

سننے میں تو گانا بہت بھلا لگتا ہے لیکن جب اسے کاغذ پر لکھا ہوا دیکھیں تو اور ہی کہانی سامنے آتی ہے:

موسم کوئی ہو اس چمن میں رنگ بن کے رہیں گے ہم خراماں
چاہت کی خوشبو یوں ہی زلفوں سے اڑے گی خزاں ہو کہ بہاراں

ذرا قافیے کا استعمال ملاحظہ ہو کہ اتنی لمبی بحر میں بھی مناسب قافیہ نہ مل سکا۔ ’خراماں‘ کا مطلب ہے عمدہ چال یا خوش خرامی۔ ظاہر ہے کہ خراماں خراماں چلنا تو مستعمل ہے، لیکن ’خراماں رہنا‘ عجیب سی بات ہے۔ یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ دوسرے مصرعے میں بہاراں جمع ہے اور خزاں واحد۔ شاعرانہ اصطلاح میں اسے عیبِ شتر گربگی کہا جاتا ہے یعنی ایک جگہ اونٹ اور بلی کا امتزاج۔

کھوئے ہم ایسے، کیا ہے ملنا کیا بچھڑنا، نہیں ہے یاد ہم کو
کوچے میں دل کے، جب سے آئے صرف دل کی زمیں ہے یاد ہم کو

دل کے کوچے میں دل کی زمین کو یاد کرنا، یعنی چہ؟

اسی فلم سے ایک اور شاہ کار نغمہ دیکھیے، اور یہ بھی ذہن میں رکھیئے کہ میں صرف اعلیٰ پائے کے نغموں سے مثالیں دے رہا ہوں:

چھپا لو یوں دل میں پیار میرا کہ جیسے مندر میں لو دیے کی

ہر لحاظ سے شان دار گانا ہے، لیکن صرف سننے کی حد تک۔ کاغذ پر کچھ اور ہی کہانی نظر آتی ہے۔

میں سر جھکائے کھڑی ہوں پریتم، کہ جیسے مندر میں لو دیے کی

قابلِ غور بات یہ ہے کہ دیے کی لو ہمیشہ سر کو اٹھائے ہوئے رہتی ہے، نہ کہ سر جھکائے۔ دوسری بات یہ ملاحظہ کیجیئے کہ مجروح نے اس گیت کے مکھڑے میں ’میرا‘ اور ’پریتم‘ کو بطورِ ’قافیہ‘ استعمال کیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ انہیں کوئی قافیہ نہیں ملا، اس لیے صرف ردیف ہی پر اکتفا کرنا پڑی۔ مجروح کا ایک اور گیت لیجیئے:

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

یہ مصرع مجروح نے فیض احمد فیض کی نظم سے لیا ہے، اگرچہ یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ انھوں نے خط لکھ کر فیض سے اسے استعمال کرنے کی اجازت لے لی تھی۔ لیکن میرا اشارہ اسی گیت کے دوسرے بندوں کی طرف ہے:

یہ اٹھیں صبح چلے، یہ جھکیں شام ڈھلے
میرا جینا میرا مرنا انہی پلکوں کے تلے

غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ’صبح کا چلنا‘ نہ صرف خلافِ محاورہ ہے بلکہ بے معنی بھی۔

پلکوں کی گلیوں میں چہرے بہاروں کے ہنستے ہوئے
ہیں میرے خوابوں کے کیا کیا نگر ان میں بستے ہوئے

اب ذرا استعارے کی پیچیدگی دیکھیے کہ پلکوں کی گلیاں ہیں جن میں بہاروں کے چہرے ہنس رہے ہیں، اور ان چہروں میں خوابوں کے نگر آباد ہیں۔ یہاں ’غالب نما‘ پیچیدگی تو ضرور ہے لیکن غالب کے برعکس یہ پیچیدگی بے معنی اور فلمی گانے کے لیے بالکل نامناسب ہے۔

ایک اور معروف فلمی شاعر شکیل بدایونی ہیں جن کا نام ساحر کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ لیکن میری نظر میں دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ شکیل کے ہاں بعض جگہ عروض کی غلطیاں بھی نظر آتی ہیں، مثال کے طور پر وہ لفظ "نہ" کو بر وزنِ "نا" بھی باندھ جاتے ہیں۔ اچھے شاعر، مثال کے طور پر ساحر، اس چیز سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شکیل کے ہاں زبان و بیان کی کوئی تازگی نظر نہیں آتی، وہی لگی بندھی تشبیہات، پامال استعارات اور استعمال شدہ ترکیبوں کی بھرمار شکیل کا خاصہ ہے۔

اس کے مقابلے پر ساحر کے قافیے اورردیفیں اتنی بے ساختہ ہوتی ہیں کہ اکثر تو ان کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ وہی چیز ہے جسے تکنیکی زبان میں ’سنگلاخ زمینوں کو سرسبز کرنا‘ کہا جاتا ہے۔ ساحر کے اعلیٰ ترین گانوں کو ایک طرف رکھیے، عام سے گانوں میں بھی اس چیز کا التزام نظر آئے گا۔ صرف ایک دو مثالوں سے بات واضح ہو جائے گی۔

فلم ’کبھی کبھی‘ کا نغمہ ہے

تیرے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی، نظارے ہم کیا دیکھیں

ملاحظہ ہو کہ اس گانے کا قافیہ ہٹتی اور ردیف ’نظارے ہم کیا دیکھیں‘ہے اور ہر جگہ ردیف انگوٹھی میں نگینے کی طرح چسپاں ہے۔ فلم ’دل ہی تو ہے‘ کا نغمہ دیکھیئے:

تم اگر مجھ کو نہ چاہو تو کوئی بات نہیں
تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی

اس بات سے قطعِ نظر کہ اس نغمے میں رومانوی حسد کے جذبات عمدگی سے بیان کیے گئے ہیں، ملاحظہ ہو کہ اس کی ردیف ’گی تو مشکل ہو گی‘ ہے۔

دو مزید مثالیں دیکھیئے:

جسے تو قبول کر لے وہ صدا کہاں سے لاؤں
ترے دل کو جو لبھا لے وہ ادا کہاں سے لاؤں
(دیوداس)

اک راستا ہے زندگی، جو ہم گئے تو کچھ نہیں
یہ قدم کسی مقام جو تھم گئے تو کچھ نہیں
(کالا پتھر)

ڈوب گئے آکاش کے تارے، جا کے نہ تم آئے
تکتے تکتے نیناں ہارے، جا کے نہ تم آئے

(جال)

آخر الذکر گانا تو اس قدر خوب صورت ہے کہ اس کا ایک اور بند نقل کیے بغیر رہا نہیں جاتا:

بہتے بہتے چاند کی کشی دور گگن میں کھونے لگی
آس کی اک ننھی سی کرن تھی، وہ بھی اوجھل ہونے لگی

ساحر کی ادبی اور فلمی شاعری کی کامیابی کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ساحر سر تا پا شاعر تھے، بلکہ یوں کہیئے کہ شاعری ان کی شخصیت پر پوری طرح سے حاوی تھی اور اگر ان کی زندگی سے شاعری کو منہا کر دیں تو میزان میں باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی اپنی ذات کے ساتھ مخلص ہو جائے تو پھر وہ دوسروں کے ساتھ بھی مخلص ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ساحر اپنی ذات سے زیادہ اپنی شاعری سے مخلص تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی فلمی شاعری میں بھی جگہ جگہ فلمی نغمہ نگار نہیں بلکہ ساحر لدھیانوی بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہم ’پھر صبح ہو گی‘ کا پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں۔ اس کا گانا ’چین و عرب ہمارا‘ ساحر کا منشور لگتا ہے۔ اس اسی فلم کے دوسرے کئی نغمے بھی ساحر کے نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں، جیسے ’آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم‘، اور ’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘، وغیرہ۔

ساحر نے کم از کم دو ایسی کامیاب ترین فلموں کے گانے لکھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔ ان میں گرودت کی ’پیاسا‘ اور یش راج کی ’کبھی کبھی‘ شامل ہیں۔ پیاسا کے گانے تو درجہ اول کی شاعری کے زمرے میں آتے ہیں:

یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا

اور یہ گانا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

اسی طرح کبھی کبھی میں ’کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے‘ کے علاوہ ’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘ ایسے گانے ہیں جو صرف ساحر ہی لکھ سکتے تھے۔

اسی قبیل کے دوسرے گانوں میں ’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے، انسان بنے گا‘، ’ساتھی ہاتھ بڑھا ساتھی رے، ایک اکیلا تھک جائے گا، مل کر بوجھ اٹھانا‘ وغیرہ شامل ہیں۔

ظاہر ہے کہ کسی اور فلمی شاعر کو یہ چھوٹ نہیں ملی کہ وہ اپنے حالاتِ زندگی پر مبنی نغمے لکھے۔ یہی وجہ ہے ساحر فلمی گیتوں میں بھی ساحر ہی نظر آتے ہیں اور ان کے انداز کو آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس ساحر کے ہم عصروں میں دوسرا ایسا کوئی فلمی نغمہ نگار نہیں ہے جس کا کوئی مخصو ص انداز ہو۔

اس کے علاوہ ساحر کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو ہندوستانی عورت کی حالتِ زار کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے۔ یہ چیز ان کے کئی فلمی گیتوں میں بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ’پیاسا‘میں انھوں نے اپنی نظم ’چکلے‘کو آسان زبان میں پیش کیا ’ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟‘ کا فلمی روپ ’جنھیں ناز تھا ہند پر وہ کہاں ہیں؟‘ یاد رہے کہ اس مصرعے کے ذریعے براہِ راست نہرو پر چوٹ کی گئی ہے جنہوں نے کسی تقریر میں کہا تھا کہ ہمیں ہند پر ناز ہے۔

اس کے علاوہ ان کا بے حد عمدہ گیت ہے، ’دو بوندیں ساون کی‘جو ان کی حقیقی زندگی کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔

ساحر کی فلمی گیت نگاری کا تذکرہ نامکمل رہے گا اگر ہم ان کے ’ہندی‘گیتوں کا جائزہ نہ لیں۔ ہندی زبان کی کوملتا اور رچاؤ کو جیسے ساحر نے برتا، وہ اندازکسی اور فلمی شاعر کو نصیب نہیں ہو سکا۔ اس نوعیت کے گیتوں میں’آج سجن موہے انگ لگا لو جنم سپھل ہو جائے‘، ’من رے تو کاہے نہ دھیر دھرے‘،’تورا من درپن کہلائے‘،’سانجھ کی لالی سلگ سلگ کر بن گئی کالی دھول‘اور ’لاگا چنری میں داگ، چھپاؤں کیسے،‘وغیرہ شامل ہیں۔

آخر الذکر گانا تو شاہ کار کا درجہ رکھتا ہے کہ اس میں ساحر نے بھکتی رس سے استفادہ کرتے ہوئے برج بھاشا آمیز زبان میں بے حد عمدہ شاعری کی ہے۔ گیت میں انسان کو بیاہتا کے روپ میں دکھایا گیا ہے، آسمان اس کا میکہ ہے اور دنیا سسرال۔ لیکن سسرال میں اس کا دامن میلا ہو گیا ہے اور بیاہتا کو فکر ہے کہ وہ آخرت میں بابل سے نظریں کیسے ملائے گی۔ انتہائی عمدہ اور کارگر استعاراتی نظام ہے، جو تمام گیت کو ایک کامیاب تمثیل کی شکل دے دیتا ہے۔ تاہم فلمی ضرورت سے مجبور ہو کر ساحر نے گیت کے آخر میں جو ’فرہنگ‘ پیش کر دی، اس سے کسی حد تک مزہ کرکرا ہو جاتا ہے:

کوری چنریا آتما موری، میل ہے مایا جال
وہ دنیا مورے بابل کا گھر، یہ دنیا سنسار

۔۔۔۔۔

پچھلے چند عشروں میں ادبی دنیا میں ساحر کا ستارہ بے شک گہنا گیا ہے، لیکن فلمی شاعری کا اک تارا اب بھی بستی بستی پربت پربت بج رہا ہے۔