برطانیہ کی پاکستانی نژاد رکن پارلیمان ناز شاہ کی طرف سے جمعرات کو سامعہ شاہد کی موت کے معاملے کی تحقیقات میں پولیس کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ناز شاہ کا ماننا ہے کہ ان کے حلقے بریڈ فورڈ ویسٹ کی رہائشی سامعہ شاہد کو پاکستان میں غیرت کے نام پر ’قتل‘ کیا گیا ہے۔
واضح پاکستان کے وزیر داخلہ نے پولیس اعلیٰ افسران کی زیر قیادت اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے۔
رکن پارلیمان ناز شاہ نے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ابتدائی نتائج کے بعد سامعہ کی موت کی تحقیقات میں تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اس واقعے سے متعلق حقائق کو چھپانے کے لیے پولیس پر ممکنہ ملی بھگت کا الزام لگایا ہے۔
اٹھائیس سالہ سامعہ شاہد کی پچھلے ہفتے جہلم کے گاؤں پنڈوریاں میں موت واقع ہو گئی تھی۔ سامعہ شوہر مختار کاظم کا الزام ہے کہ ان کی بیوی کو گھر والوں نے غیرت کے نام پر مار ڈالا ہے۔
سید مختار کا کہنا ہے کہ سامعہ کو مبینہ طور پر دھوکے سے پاکستان بلایا گیا تھا۔ وہ خاندان سے باہر شادی کرنے پر سامعہ سے سخت ناراض تھے اور انھوں نے اس دوسری شادی کو قبول نہیں کیا تھا۔
سامعہ کی موت کی تحقیقات کرنے والی پولیس نے اتوار کو برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا تھا کہ لاش پر نظر آنے والی چوٹوں یا تشدد کے نشانات نہیں تھے۔
اطلاعات کے مطابق جمعرات کو جاری ہونے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے جسم پر دائیں کان کے نیچے گردن کے پاس سرخی مائل بھوری لکیریں یا خرونچ کے نشانات ہیں جبکہ اس کی گردن کے ارد گرد کوڑے سے پڑنے والی دو جامنی دھاریوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ناز شاہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ''میں نے اپنے حلقے کی رہائشی کی موت کی مناسب تحقیقات کا مطالبہ لے کر اس معاملے کے بیچ میں آئی تھی، جس میں غیرت کے نام پر قتل کے تمام نشان موجود تھے اور آٹوپسی رپورٹ دیکھنے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب ہم ایک ایسے کیس کو دیکھ رہے ہیں جس میں حقائق کو چھپایا جا رہا ہے''۔
انھوں نے کہا کہ میں پولیس کے افسر اور پوسٹ مارٹم کرنے والے معالج کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ صرف چند دنوں پہلے ہمیں بتایا گیا تھا کہ آٹوپسی غیر فیصلہ کن ہے اور لاش پر کوئی واضح نشان نہیں ملا ہے اور اب پوسٹ مارٹم رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ اس کی گردن پر نشانات ہیں۔
سامعہ شاہد کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ سامعہ کی موت دل کا دورہ یا دمے کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی اور اس بات پر مصر ہیں کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو قتل نہیں کیا ہے۔
جمعرات کو سامعہ کے دوسرے شوہر سید مختار کاظم نے کہا کہ وہ پولیس کی طرف سے مطمئن نہیں ہیں اور ایک مرتبہ پھر سے پوسٹ مارٹم کروانا ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس قتل کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور میری زندگی کو بھی خطرہ ہے لیکن اس بات کا کوئی سوال نہیں ہے کہ میں خاموش رہوں۔ یہ انصاف کا سوال ہے اور میرا مقصد واضح ہے کہ اگر اسے مارا گیا ہے تو مجھے اس کے لیے انصاف چاہیئے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ان کی بیوی کو ایک رشتہ دار کی طرف سے پاکستان بلایا گیا تھا جس نے سامعہ کو ایک دوسرے رشتہ دار کی بیماری کا بتایا تھا۔
سامعہ قتل کیس تحقیقات کے سلسلے میں بدھ کے روز سامعہ کے پہلے شوہر شکیل کی تلاش میں ایک خصوصی ٹیم قائم کی گئی ہے جو قتل کی تحقیقات سے قبل ہی غائب ہیں جب کہ راولپنڈی ہائی کورٹ نے شکیل کی عبوری ضمانت منظور کر لی ہے۔
خاندان کا کہنا ہے کہ سامعہ کی پہلی شادی اس کے کزن شکیل کے ساتھ ہوئی تھی جبکہ جہلم پولیس کا کہنا ہے کہ اسے اس شادی کے ثبوت سے متعلق دستاویزات فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔
سامعہ نے 2014ء میں برطانیہ کی شرعی عدالت سے خلع حاصل کر لی تھی اور لیڈز میں سید مختار کاظم کے ساتھ دوسرا نکاح کیا تھا۔
برطانیہ میں سامعہ کے دوستوں کا کہنا ہے کہ اس کے گھر والوں کو اس کے رویے کی وجہ سے توہین محسوس ہوتی تھی اور انھوں نے اس کی محبت کی شادی کو قبول نہیں کیا تھا۔
رکن پارلیمان ناز شاہ کو دھمکی دینے کے الزام میں سامعہ شاہد کے دوکزن کو بدھ کے روز گرفتار کیا گیا تھا جو اب ضمانت پر ہیں۔