بھارت کی کرکٹ ٹیم نے کپتان ورات کوہلی کی شاندار بلے بازی کی بدولت کولکتہ میں پنک بال سے کھیلے گئے نائٹ ٹیسٹ میچ میں بنگلہ دیش کو ایک اننگ اور 46 رنز سے ہرا دیا اور سیریز بھی دو صفر سے جیت لی۔ رات کو ٹیسٹ کرکٹ کرانے کے اس تجربے کا مقصد شائقین کی کھیل کے اس طویل فارمیٹ میں دلچسپی برقرار رکھنا تھا۔
بنگلہ دیش کی ٹیم بھارت کے 347 رنز 9 کھلاڑی آوٹ پر ڈیکلئیرڈ کے جواب میں پہلی اننگ میں صرف 106 اور دوسری اننگ میں 195 رنز بنا کر آوٹ ہو گئی۔ ایشانت شرما نے پہلی اننگ میں پانچ اور دوسری اننگ میں چار وکٹیں حاصل کیں۔ یادیو نے دوسری اننگ میں پانچ کھلاڑیوں کو آوٹ کیا۔ کپتان ویرات کوہلی نے 136، پجارا نے 55 اور اجنکیے رانا نے 51 رنز بنائے تھے۔
اس ٹیسٹ میچ کے بارے میں سوشل میڈیا پر بحث کھیل سے زیادہ کمنٹیٹرز ہرشا بھوگلے اور سنجے منجریکر کے درمیان آپس کے سخت مکالمے پر شروع ہو گئی ہے۔ کمنٹری کے دوران ہرشا بھوگلے نے ٹیسٹ کرکٹ میں گلابی رنگ کی گیند کے استعمال پر تجزیہ چاہا اور تجویز دی کہ کھلاڑیوں سے اس بارے میں رائے لی جانی چاہیے کہ آیا ان کو گلابی گیند کو سفید سکرین کے آگے دیکھنے میں کوئی مشکل تو پیش نہیں آ رہی۔ اس اشو کا پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے، یہ بڑا فیکٹر ہو سکتا ہے‘‘۔
اس پر سنجے منجریکر نے اپنے فوری ردعمل میں کہا ’’ ہرشا، صرف آپ کو یہ پوچھنے کی ضرورت ہے، ہمھیں نہیں، ہم نے کافی کرکٹ کھیل رکھی ہے اور ہمھیں کافی اندازہ ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے، سلپ اور باونڈری پر اچھے کیچ پکڑے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ گیند صاف نظر آ رہی ہے۔ مسئلہ گلابی رنگ کا نہیں، ٹیکسچر کا ہو سکتا ہے‘‘
اس پر ہرشا بھوگلے نے کہا کہ میرا سوال اسی وجہ سے ہے کہ کھیلنے والے کو اندازہ ہوتا ہے کہ کنڈیشنز کیا ہوتی ہیں۔ لیکن سیکھنے کی کوئی حد مقرر نہیں۔ کوئی عمر کوئی وقت مخصوص نہیں ہے۔ آپ نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ نہیں کھیلی، پنک بال سے ڈے اینڈ نائٹ کرکٹ نہیں کھیلی، سو کبھی کبھی بہتر ہوتا ہے کہ دوسروں سے رائے لی جائے۔۔ دوسرے لوگ آپ کے مفروضے کو وجہ دے سکتے ہیں نہ کہ پوچھے جانے سے پہلے ہی آپ کے سوال کو مسترد کر دیں۔ یہی وہ بات ہے جو میں پوچھ رہا ہوں‘‘
اس پر سنجے منجریکر کہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر آ گیا، لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا‘‘ ہرشا کہتے ہیں کہ بات سے اتفاق یا عدم اتفاق کی بھی وجہ ہونی چاہیے۔‘‘
کمنٹری باکس میں دو بڑے کمنٹیٹرز کے درمیان اس لفظی جنگ پر ٹویٹر پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔ بہت سے صارفین سنجے منجریکر کو خود پسند یا مغرور قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر کو اپنے کنڈکٹ پر ہرشا سے معافی مانگنی چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بھارت سے معروف سپورٹس اینکر بوریا مجمدار نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ساتھی کمنٹیٹرز کے ساتھ یہ رویہ درست نہیں ہے۔
’’ بہت سادہ سی بات ہے، اپنے ساتھی کمنٹیٹرز کی عزت کریں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے کرکٹ کھیل رکھی ہے تو آپ ہی کے پاس کرکٹ کی ہر چیز کا علم ہو گا‘‘
مزرا اقبال بیگ معروف پاکستانی کرکٹ کمنٹیٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں رائے کے اختلاف میں حرج نہیں لیکن سننے دیکھنے والوں کو یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ کمنٹیٹرز کے درمیان کوئی ذاتی اختلاف ہے۔ ان کے بقول سنجے منجریکر کا انداز غلط تھا جب انہوں نے کہا کہ میں نے کرکٹ کھیل رکھی ہے۔ ان کو مہذب انداز اختیار کرنا چاہیے تھا
شاہ فیصل امریکہ میں مقیم کرکٹ کمنٹیٹرہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہتے ہیں کہ کمنٹری باکس کے پیچھے بہت کچھ ایسا چل رہا ہوتا ہے جو سامنے نہیں ہوتا۔
’’ بہت کچھ پردے کے پیچھے ہو رہا ہوتا ہے۔ بہت تناؤ والا ماحول ہوتا ہے، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہرشا بھوگلے اور سنجے منجریکر کے درمیان کیا کچھ پہلے سے چلا آ رہا ہو گا لیکن کچھ پس منظر ضرور ہو گا‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ برصغیر میں یہ عام بات ہے کہ کرکٹرز کسی بھی نان کرکٹر کے کرکٹ پر تبصرے کو اچھا نہیں سمجھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہرشا بھوگلے دنیائے کرکٹ میں تجزیے کی دنیا میں ایک بڑا نام ہیں۔ اور انہوں نے منجریکر کے ساتھ بحث میں بجا طور پر درست کہا ہے کہ سیکھنے کے لیے وقت، عمر یا کوئی اور معیار نہں ہوتا۔ ان کا سوال جینئوئن تھا۔
ایاز خان بھی امریکہ میں مقیم ہیں اور آئی سی سی کے پینل پر رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہرشا اور منجریکر کے درمیان جو تکرار ہوئی، وہ آن ایئر نہیں ہونی چاہیے تھی۔ کمنٹری باکس کا ایک تقدس ہوتا ہے جس کی پاسداری ہونی چاہیے۔
شاہ فیصل کہتے ہیں کہ مائیکروفون استعمال کرنے کے بھی ضابطے ہوتے ہیں۔ اس ساتھی سے اتفاق یا عدم اتفاق کر سکتے ہیں لیکن یہ کوئی طریقہ کار نہیں کہ آپ ساتھی کمنٹیٹر کی تضحیک کریں۔
’’ ہرشا بھوگلے کا دنیائے کرکٹ میں ایک نام ہے۔ سنجے منجریکر نے ایتھکس کی خلاف ورزی کی ہے اور ایک سینئر براڈکاسٹر کی لائیو نشریات میں تضحیک کی ہے۔ ہرشا کا سوال جینوئن تھا۔ سنجے کا اس پر بھڑک اٹھنا نظم کے خلاف۔ معافی مانگنا تو بنتا ہے۔‘‘
اقبال بیگ کہتے ہیں کہ یا تو سنجے منجریکر کوئی پرانا بدلہ چکا رہے تھے یا پھر وہ خود کو ہرشا سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
بوریا مجمدار کا کہنا تھا کہ جب آپ کمنٹری کر رہے ہوتے ہیں تو آپ تجزیہ کر رہے ہوتے ہیں، کھیل نہیں رہے ہوتے۔ آپ بول رہے ہیں۔ اور ایک خاص زبان استعمال کرتے ہیں۔
’’ اگر میں کہوں کہ میں نے آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ میری انگریزی زیادہ اچھی ہے ۔ میرا تعلیمی پس منظر ہے اور آپ اچھی انگریزی نہیں بول سکتے تو یہ کسی کے لیے عزت کی بات نہیں۔ گھمنڈ کی بات ہے اور سنجے نے یہی کیا ہے۔ جب کہا کہ میں نے یہ کھیل کھیل رکھا ہے۔‘‘
ایاز خان کہتے ہیں کہ جس طرح ضروری نہیں کہ اچھا کھلاڑی ہی اچھا کوچ بنے، بالکل یہ بھی ضروری نہیں کہ کھیل کے بارے میں علم کھلاڑی کو ہی زیادہ ہو گا۔
’’ دنیا میں کئی اچھے کوچز ہیں جن کا ریکارڈ بطور کھلاڑی کوئی تابناک نہیں ہے۔ لیکن وہ کھیل کا اچھا تجزیہ کر سکتے ہیں اور ٹیم کو تیار کر سکتے ہیں‘‘
مجمدار کہتے ہیں کہ ہرشا بھوگلے 1992 سے کمنٹری کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
’’ سنجے منجریکر نے حدود کراس کی ہیں۔ یہ تکرار دوستانہ ماحول میں نہیں تھی۔ کمنٹری باکس میں اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
سنجے منجریکر کے ٹویٹر اکاونٹ پر ان کی طرف سے اس تنقید پر ردعمل سامنے نہیں آیا البتہ ان کی پروفائل میں یہ لکھا ہے کہ کرکٹ پر ان کے بطور مبصر تجربہ ان کے کرکٹر ہونے سے زیادہ ہو گیا ہے۔