انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا موقف ہے کہ ڈکیتی کے وقت ملزمان کی عمریں 15 سے 18 سال کے درمیان تھیں جس کے باعث انہیں اپنے فعل کے نتائج کا اندازہ نہیں تھا۔
واشنگٹن —
انسانی حقوق کےعالمی اداروں کی تنقید اور اہلِ خانہ کی اپیلوں کے بعد سعودی عرب کی حکومت نے پھانسی کے منتظر سات قیدیوں کی سزائوں پر عمل درآمد موخر کردیا ہے۔
ان ساتوں افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے 2006ء میں جنوبی صوبے عسیر میں زیورات کی ایک دکان میں ڈکیتی کی تھی۔
ایک سعودی عدالت نے الزام ثابت ہونے پر انہیں 2009ء میں موت کی سزا سنائی تھی لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کے مطابق ملزمان کا موقف ہے کہ ان پر تشددکرکے ان سے اقبالِ جرم کرایا گیا تھا۔
ان ملزمان کی سزائوں پر عمل درآمد منگل کو کیا جانا تھا لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے ان پر چلائے جانے والے مقدمے کی کاروائی کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے سعودی حکومت سے سزائوں پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کی تھی۔
ملزمان کے ایک قریبی عزیز محمد الربہان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ سعودی عرب کے حکمران شاہ عبداللہ کے بڑے بیٹے – جو سعودی عرب نیشنل گارڈ' کے سربراہ بھی ہیں – نے ملزمان کی سزائوں پر عمل درآمد ایک ماہ کے لیے موخر کرنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو جاری کیے جانے والے حکم نامے کے مطابق اس دوران میں ملک کی شاہی عدالت ان ملزمان کے خلاف از سرِ نو مقدمہ چلانے کی درخواست کی سماعت کرے گی۔
حکم نامے کے اجرا سے قبل محمد الربہان اور ملزمان کے 200 کے لگ بھگ دیگر رشتے دار اور احباب شاہی عدالت پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے عدالت میں رحم کی اپیل دائر کی تھی۔
ملزمان کے رشتے داروں کے مطابق شہزادہ متعب بن عبداللہ کے حکم نامے سے قبل صوبہ عسیر کے گورنر نے بھی ساتوں ملزمان کی سزائوں پر عمل درآمد 10 دن کے لیے موخر کرنے کا حکم دیا تھا۔
انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا موقف ہے کہ ڈکیتی کے وقت ان ملزمان کی عمریں 15 سے 18 سال کے درمیان تھیں جس کے باعث انہیں اپنے فعل کے نتائج کا اندازہ نہیں تھا۔
عالمی تنظیموں نے تفتیشی عمل اور مقدمے کی کاروائی کو بھی غیر شفاف قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ملزمان کے ساتھ دورانِ حراست بھی شدید نوعیت کی بدسلوکی کی گئی۔
ان ساتوں افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے 2006ء میں جنوبی صوبے عسیر میں زیورات کی ایک دکان میں ڈکیتی کی تھی۔
ایک سعودی عدالت نے الزام ثابت ہونے پر انہیں 2009ء میں موت کی سزا سنائی تھی لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کے مطابق ملزمان کا موقف ہے کہ ان پر تشددکرکے ان سے اقبالِ جرم کرایا گیا تھا۔
ان ملزمان کی سزائوں پر عمل درآمد منگل کو کیا جانا تھا لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے ان پر چلائے جانے والے مقدمے کی کاروائی کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے سعودی حکومت سے سزائوں پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کی تھی۔
ملزمان کے ایک قریبی عزیز محمد الربہان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ سعودی عرب کے حکمران شاہ عبداللہ کے بڑے بیٹے – جو سعودی عرب نیشنل گارڈ' کے سربراہ بھی ہیں – نے ملزمان کی سزائوں پر عمل درآمد ایک ماہ کے لیے موخر کرنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو جاری کیے جانے والے حکم نامے کے مطابق اس دوران میں ملک کی شاہی عدالت ان ملزمان کے خلاف از سرِ نو مقدمہ چلانے کی درخواست کی سماعت کرے گی۔
حکم نامے کے اجرا سے قبل محمد الربہان اور ملزمان کے 200 کے لگ بھگ دیگر رشتے دار اور احباب شاہی عدالت پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے عدالت میں رحم کی اپیل دائر کی تھی۔
ملزمان کے رشتے داروں کے مطابق شہزادہ متعب بن عبداللہ کے حکم نامے سے قبل صوبہ عسیر کے گورنر نے بھی ساتوں ملزمان کی سزائوں پر عمل درآمد 10 دن کے لیے موخر کرنے کا حکم دیا تھا۔
انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا موقف ہے کہ ڈکیتی کے وقت ان ملزمان کی عمریں 15 سے 18 سال کے درمیان تھیں جس کے باعث انہیں اپنے فعل کے نتائج کا اندازہ نہیں تھا۔
عالمی تنظیموں نے تفتیشی عمل اور مقدمے کی کاروائی کو بھی غیر شفاف قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ملزمان کے ساتھ دورانِ حراست بھی شدید نوعیت کی بدسلوکی کی گئی۔