سعودی عرب کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں ملک کے تین مختلف شہروں میں بم دھماکوں کی تفتیش کے دوران 19 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'اے پی' نے سعودی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ گرفتار ہونے والوں میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں۔
گرفتار کیے گئے پاکستانی شہریوں سے متعلق مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
جمعرات کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق مدینہ شہر میں مسجد نبوی کے قریب ہونے والا دھماکا 26 سالہ سعودی شہری نے کیا تھا جس کی شناخت نائر النجیدی کے نام سے کی گئی ہے۔
گزشتہ پیر کو سعودی عرب کے تین شہروں میں خودکش بم حملے ہوئے ان میں سے سب سے پہلا حملہ جدہ میں امریکی قونصل خانے کے باہر، دوسرا شیعہ اکثریتی علاقے قطیف اور تیسرا مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب ہوا۔
قطیف شہر میں شعیہ مسجد کے باہر ہونے والے حملے میں ملوث خود کش حملہ آوروں کی شناخت عبدالرحمن صالح محمد، ابراہیم صالح محمد اور عبدالکریم الحسنی کے نام سے کی گئی۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ جدہ میں امریکی قونصل خانے کے باہر خودکش بم دھماکا کرنے والے شخص عبداللہ گلزار خان کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اس حملے میں قونصل خانے کے عملے کے افراد محفوظ رہے۔
سعودی وزارت داخلہ کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ عبداللہ گلزار خان اپنی اہلیہ اور اُس کے والدین کے ساتھ سعودی عرب میں مقیم تھا اور وہ 12 سال سے بطور ڈرائیور یہاں کام کر رہا تھا۔
سابق سفارت کار اور انسٹیٹویٹ آف اسٹریٹیجک اسڈیٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل مسعود خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس حساس معاملے پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون ضروری ہے۔
’’تعلقات قائم رہنے چاہیں، یہ مشکل مرحلہ ہے اور اس مرحلے سے ہمیں بہت ذمہ داری سے گزرنا چاہیئے۔۔۔۔ خاص طور پر یہ خیال رکھنا چاہیئے اگر کچھ انفرادی افعال ہیں، جن کے بارے میں شواہد سامنے آتے ہیں تو اس کی وجہ سے سعودی عرب میں جو پوری پاکستانی کمیونٹی ہے اُس پر اثرات نہیں پڑنے چاہییں۔‘‘
پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ سعودی عرب میں دھماکوں کی تحقیقات میں سعودی حکومت سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔