شاہی خاندان کی 'توہین' پر سعودی کارٹونسٹ کو 23 سال قید کی سزا: انسانی حقوق گروپ

فائل فوٹو

  • محمد الحزہ کو فروری 2018 میں ایک چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا: انسانی حقوق تنظیم
  • سعودی کارٹونسٹ کو پہلے چھ سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
  • جب وہ جیل سے رہا ہونے والے تھے تو کیس دوبارہ کھولا گیا اور ان کی سزا 23 سال کردی گئی: بہن سعودی کارٹونسٹ
  • سعودی حکام نے فوری طور پر اس کیس سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ کی بہن اور انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ ایک سعودی آرٹسٹ محمد الحزہ کو مبینہ طور پر ملکی قیادت کی توہین کرنے والے سیاسی کارٹون بنانے پر 23 سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم 'سند' نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پانچ بچوں کے والد محمد الحزہ کو فروری 2018 میں سعودی عرب میں "ایک پُر تشدد چھاپے" کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ چھاپے کے دوران سیکیورٹی فورسز ان کے گھر میں داخل ہوئی تھیں اور ان کے اسٹوڈیو کو توڑ دیا تھا۔

'اے ایف پی' کی جانب سے دیکھی گئی ایک عدالتی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ محمد الحزہ کے خلاف الزامات "جارحانہ کارٹونز" سے متعلق ہیں جو انہوں نے قطری اخبار 'لوسیل' کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پوسٹس کے لیے تیار کیے تھے جو مبینہ طور پر سعودی عرب کی "مخالفت" اور قطر کی حمایت کے لیے تھے۔

محمد الحزہ کو سال 2017 میں سعودی عرب اور اتحادی ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کیے جانے کے ایک سال سے بھی کم عرصے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

سعودی عرب اور اتحادیوں نے قطر سے یہ کہہ کر تعلقات منقطع کیے تھے کہ وہ انتہا پسندوں کی حمایت کرتا ہے اور ایران کے بہت قریب ہے۔ دوحہ نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

بعد ازاں جنوری 2021 میں ان ممالک کے تعلقات بہتر ہو گئے تھے۔

سعودی عرب میں دہشت گردی سے متعلق کیسز سے نمٹنے کے لیے 2008 میں قائم کی گئی خصوصی فوجداری عدالت نے ابتدائی طور پر محمد الحزہ کو چھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔

تاہم محمد الحزہ کی بہن اسرار الحزہ نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ رواں سال جب الحزہ رہائی کی تیاری کر رہے تھے تو ان کا کیس دوبارہ کھولا گیا اور انہیں 23 سال کی سزا دے دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ تقریباً وہاں پہنچ چکے تھے۔ وہ تقریباً جیل سے نکل چکے تھے۔ لیکن پھر پتا نہیں کہاں سے کیس کھولا گیا اور ان کی سزا 23 سال کر دی گئی۔

سعودی حکام کی جانب سے فوری طور پر اس کیس سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم سند نے ایک بیان میں کہا ہے کہ محمد الحزہ 2017 کے بائیکاٹ سے قبل زیادہ تر لوسیل کے لیے کام کرتے تھے اور اس کے "کچھ عرصے بعد" ان کے زیادہ تر کارٹونز قطر کے مقامی مسائل سے متعلق ہوتے تھے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ استغاثہ ایسے کارٹونز جو سعودی عرب کے لیے ناگوار تھے یا بائیکاٹ کے دوران قطر کی حمایت میں کی گئی سوشل میڈیا پوسٹس کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔

SEE ALSO: سعودی عرب کو فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی دینے سے پہلے شرائط عائد کرنے کا مطالبہ

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب پر آزادئ اظہار سے متعلق کافی تنقید ہوتی رہی ہے۔ ایکٹوسٹس اسے آن لائن اظہارِ خیال کے خلاف سخت کریک ڈاؤن قرار دیتے ہیں۔

انسانی حقوق کے گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اے ایل کیو ایس ٹی نے اپریل میں کہا تھا کہ گزشتہ دو سال میں سعودی عرب کی عدلیہ نے "سوشل میڈیا پر اظہارِ خیال کرنے پر درجنوں افراد کو مجرم قرار دے کر طویل سزائیں سنائیں۔"

البتہ سعودی حکام کہتے ہیں کہ ملزمان نے دہشت گردی سے متعلق جرائم کیے تھے۔

سند کے آپریشنز مینیجر سمر الشمرانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ "محمد الحزہ کا معاملہ سعودی عرب میں اظہارِ رائے کی آزادی کو دبانے کی ایک مثال ہے جس نے آرٹسٹ سمیت کسی کو نہیں بخشا ہے۔"

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔