تھائی لینڈ کے حکام نے کہا ہے کہ 18 سالہ سعودی لڑکی جو آسٹریلیا میں پناہ حاصل کرنے کی خاطر جانے کے لیے بنکاک میں رکی تھی، اب ایئر پورٹ سے جا چکی ہے اور پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ یواین ایچ سی آر اس کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
تھائی لینڈ کی امیگریشن پولیس کے سر براہ میجر جنرل سوراچٹ ہاک پارن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ سعودی لڑکی اب پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کے پاس ہے۔ ہم نے اس کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی فراہم کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رھف محمد القنون کو زبردستی سعودی عرب نہیں بھیجا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس خاتون سے بات کریں گے اور وہ جو بھی درخواست کرے گی وہی کریں گے۔ وہ مشکلات سے فرار ہو کر یہاں پہنچی ہے۔ تھائی لینڈ مسکراہٹوں کی سر زمین ہے۔ ہم کسی کو بھی مرنے کے لیے نہیں بھیجیں گے۔ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ہم قانون کی حکمرانی کے تحت انسانی حقوق کے اصولوں پر کار بند رہیں گے۔
18سالہ لڑکی کویت سے اس وقت فرار ہوئی تھی جب وہ تعطیلات کے سلسلے میں اپنے خاندان کے ساتھ وہاں گئی تھی۔ وہ ہفتے کی رات کویت سے فرار ہو کر سووینا بوم ایئر پورٹ پر پہنچی تھی۔
اس نے پیر کے روز خود کو ایئر پورٹ کے اپنے ہوٹل کے کمرے میں بند کر لیا ہے اور ٹوئیٹر پر بہت سے پیغامات پوسٹ کیے ہیں جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے اقوام متحدہ کے کسی اہل کار سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔ اس نے کہا ہے کہ جب تک اقوام متحدہ اس کی مدد نہیں کرتا وہ کمرے میں بند رہے گی۔
قنون کا کہنا تھا کہ جب اگر اسے سعودی عرب واپس بھیجا گیا تو اس کے والدین اسے قتل کر ڈالیں گے۔ انہوں نے مجھے صرف بال کاٹںے کی وجہ سے 6 مہینوں تک کمرے میں بند رکھا تھا۔ اب وہ مجھے یقینی طور پر قتل کر دیں گے۔
عہدے داروں نے یہ کہتے ہوئے اسے ملک میں داخلے کی اجازت سے انکار کر دیا ہے کہ اس کے پاس کوئی سفری دستاویزات یا پیسے نہیں ہیں۔
لیکن قنون نے کہا ہے کہ جب وہ وہاں پہنچی تو سعودی اور کویت کے عہدے داروں نے اس سے اس کا پاسپورٹ لے لیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی قنون کے اس دعوے کی تائید کی ہے۔
سعودی عرب کی انتہائی قدامت پسند سلطنت میں خواتین کو بہت کم شہری حقوق حاصل ہیں۔ انہیں پاسپورٹ حاصل کرنے اور بیرون ملک سفر کرنے کے لیے کسی مرد رشتے دار کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔
جو خواتین ایسے جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں جنہیں اخلاقیات کے خلاف جرائم کہا جاتا ہے انہیں کبھی کبھی سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔