سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اِس خیال کو رد کیا ہے جِس میں گذشتہ ماہ منیٰ میں ہونے والی مہلک بھگدڑ کے بعد اُن کے ملک کو حج کے انتظامات سے دستبردار ہوجانے کے لیے کہا گیا تھا۔
سعودی بادشاہ نے کہا ہے کہ حج کے دوران سعودی حکومت کی جانب سے کیے گئے انتظامات کے بارے میں ’غیرذمہ دارانہ بیانات‘ اور نکتہ چینی اُن کے ملک کی سالانہ حج کی ادائگی کی نگرانی کی انجام دہی پر اثرانداز نہیں ہوگی۔
یہ المناک واقع اُس وقت پیش آیا جب 24 ستمبر کو مکہ سے باہر ایک تنگ گزرگاہ سے گزرتے ہوئے، دو ہجوم آپس سے ٹکرا گئے تھے۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، اموات کی تعداد بڑھ کر 769 تک پہنچ گئی ہیں؛ جس میں کہا گیا ہے کہ بھگڈڑ کے نتیجے میں 1480 حجاج ہلاک ہوئے۔ نئی اعداد سامنے آنے کے بعد، حج کی ادائگی کے دوران یہ اب تک تاریخ کا مہلک ترین واقع ہے۔
سعودی حکام کو ابھی تازہ شمار یا شہریت کی تفصیل ظاہر کرنی ہے۔
ایرانی رہنماؤں نے اپنے علاقائی حریف، سعودی عرب پر ’بدانتظامی اور عدم استعداد‘ کا الزام لگایا ہے؛ جب کہ ایک اعلیٰ ایرانی مذہبی رہنما نے مطالبہ کیا ہے کہ حج کے انتظامات دیگر اسلامی ملکوں کے حوالے کیے جائیں۔ منیٰ کے واقعے میں کم از کم 465 ایرانی ہلاک ہوئے، جو حج میں شریک کسی ملک کے وفد کے ہلاک ہونے والے سب سے زیادہ ارکان ہیں۔
مصر کے وزیر خارجہ نے پیر کے دِن کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے مصر کے شہریوں کی تعداد بڑھ کر 181 ہوگئی ہے، جب کہ ابھی تک 53 حجاج لاپتا ہیں۔
سرکاری، ’سعودی پریس ایجنسی‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بظاہر اِس سلسلے میں سامنے آنے والے بیانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، شاہ سلمان نے کہا ہے کہ سلطنت کی جانب سے ’کسی خفیہ ہاتھ کو‘ اِس المیئے کو بنیاد بنا کر سیاست کرنے اور مسلمانوں کو منقسم کرنے کی ’اجازت نہیں دی جائے گی‘۔
سلمان نے گذشتہ ماہ حج کے انتظامات پر ’نظرثانی‘کے احکامات جاری کیے تھے۔
حج سے کچھ ہی روز قبل، اسلام کے مقدس ترین، حرم شریف پر ایک تعمیراتی کرین گرنے کا واقعہ پیش آیا،جس میں 109حجاج ہلاک ہوئے، جن میں سے متعدد غیر ملکی تھے۔