سعودی عرب میں سرکاری وکیل نے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن لوجین الحاتلول کو زیادہ سے زیادہ قید کی سزا دینے کی سفارش کی ہے جس کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ ہفتے عدالتی فیصلے میں اُنہیں 20 سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اکتیس سالہ الحاتلول کو 18 دیگر خواتین کے ہمراہ خواتین کی ڈرائیونگ سے متعلق قانون میں تبدیلی سے قبل مئی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اُن پر قومی سلامتی کے خلاف مغربی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور حساس معلومات شیئر کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے جسے رواں سال نومبر میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں منتقل کیا گیا تھا۔
عالمی سطح پر اُن کی رہائی کے مطالبات کے باوجود سعودی حکام کا کہنا ہے کہ اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
بحرین کے دورے پر موجود سعودی وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ الحاتلول پر ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے اور خفیہ معلومات مملکت کے دُشمن ممالک کو فراہم کرنے کے الزامات ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ شواہد کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان خواتین کی قسمت کا فیصلہ بہرحال عدالت کو ہی کرنا ہے۔
ناقدین کے مطابق ان کی گرفتاری کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ قدامت پسند مملکت میں اصلاحات کا اختیار صرف شاہی خاندان کے پاس ہے۔
الحاتلول سعودی عرب میں خواتین کے حقوق اور کئی معاملات میں شوہر یا محرم پر انحصار کرنے جیسے قوانین کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ اُنہیں پہلے بھی کئی بار بغاوت کے الزامات کے تحت گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔
برطانوی اخبار ‘دی گارڈین' کے مطابق لوجین الحاتلول کی بہن لینا کا کہنا ہے کہ بدھ کو سعودی عرب کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جج کا کہنا تھا کہ وہ اس مقدمے میں سزا سے متعلق فیصلہ پیر کو سنائیں گے۔
لوجین کے والدین کو جو ان کے قانونی مشیر بھی ہیں, دارالحکومت ریاض کی کریمنل کورٹ میں جمعرات کی صبح طلب کیا گیا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس پیش رفت کا لوجین کے مقدمے پر کیا اثر پڑے گا۔
لوجین کی بہن لینا کا مطالبہ ہے کہ ان کی بہن کو ہر صورت رہا کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول لوجین چاہتی تھیں کہ خواتین کی عزت اور آزادی ان کا حق ہونا چاہیے۔
لینا کا مزید کہنا تھا کہ سعودی حکام قانون کے مطابق ان کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں جو بیس سال ہے۔
لینا کے بقول لوجین پر دہشت گرد ہونے کا الزام ہے۔ حالانکہ وہ در حقیقت انسان دوست ہیں اور ایسی کارکن اور ایک خاتون ہیں۔ جو محض ایک بہتر دنیا چاہتی ہیں۔
لوجین کے رشتے داروں کا الزام ہے کہ انہیں جسمانی طور پر ہراساں کیے جانے کے علاوہ انہیں زدو کوب کیا جا رہا ہے اور انہیں بجلی کے جھٹکے دیے جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ لوجین کو لمبے عرصے کے لیے کسی سے بات نہیں کرنے دی جا رہی۔
رپورٹ کے مطابق لوجین کی بگڑتی صحت کے لیے کی جانے والی متعدد بھوک ہڑتالوں کے بعد اقوامِ متحدہ کی خواتین کے حقوق سے متعلق کمیٹی نے بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کی طرف سے بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ شاہی خاندان کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں کو سخت سزائیں دے کر مخالف آوازیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
محمد بن سلمان کو 2017 میں ولی عہد نامزد کیے جانے کے بعد ریاض میں متعدد سماجی اصلاحات کی گئی ہیں۔ جس میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت اور خواتین کو اپنے مرد سرپرستوں کے بغیر سفر کرنے کی اجازت شامل ہیں۔
تاہم ان اصلاحات کے ساتھ اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں بھی شامل ہیں۔