سعودی عرب میں خواتین نے چھاتی کے سرطان سے متعلق بیداری کو فروغ دینے کے لیے دنیا کی سب سے بڑی انسانی ربن بنانے کا ریکارڈ قائم کرلیا ہے۔
دس ہزار کے قریب سعودی خواتین نے ہفتے کے روز چھاتی کے سرطان سے آگاہی کی عالمگیر علامت سب سے بڑی گلابی انسانی ربن تشکیل دے کر گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کرا لیا ہے۔
ریاض میں واقع خواتین کی 'نورح بنت عبدالرحمن یونیورسٹی' کے ایک روزہ میلے کے اختتام کے موقع پر شرکا نے عورتوں کی صحت کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لیے شہزادی ریما بنت بندر بن سلطان السعود کی قیادت میں سب سے بڑی انسانی ربن بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔
دسمبر 12 سعودی عرب کی تاریخ میں اس لحاظ سے بھی اہم ہے کیونکہ اس روز سعودی خواتین کو ووٹ ڈالنے اور عوامی عہدہ چلانے کی اجازت دی گئی۔
اسی روز نورح بنت عبدالرحمن یونیورسٹی کے فٹ بال اسٹیڈیم میں خواتین پنک ربن کی تشکیل کے لیے گلابی ہیڈ اسکارف پہننے ہوئے ایک ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کھڑی تھیں۔
اس ریکارڈ کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے خواتین کو ایک ہی رنگ کا لباس پہننا تھا تاکہ فضائی منظر سے تصویر میں ایک ہی رنگ واضح نظر آئے۔ اس کے علاوہ شرکا کو کم ازکم پانچ منٹ تک ایک وقت میں ایک ہی پوزیشن پر رہنا تھا۔
گینیز ورلڈ ریکارڈ کی منصف سعیدہ سبازی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ سعودی عرب کی خواتین کی طرف سے کینسر سے آگاہی کے لیے سب سے بڑی انسانی ربن بنانے کی کوشش کا مشاہدہ کرنے کے لیے ریاض میں موجود ہیں۔
گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے ایک ٹوئیٹ میں نئے ریکارڈ کی تصدیق کی ہے کہ ریاض میں 8,264 خواتین شرکا نے چھاتی کے کنسر سے آگاہی کے لیے اب تک کی سب سے بڑی انسانی ربن بنانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
اس سے قبل سب سے بڑی انسانی ربن بنانے کا ریکارڈ میں بھارتی خواتین کے پاس تھا جس میں 6,846 خواتین نے شرکت کی تھی۔
'ٹین کے ایس اے' نامی اس اقدام کی سرپرست شہزادی ریما بنت بندر السعود ہیں۔
شہزادی ریما بنت السعود نے اس موقع پر سعودی گزٹ کو بتایا کہ ایک سعودی خاتون ہونے کی حیثیت سے یہ ان کے لیے ایک قابل فخر لمحہ ہے کیونکہ آج کے دن ہم نے ووٹ دیا ہے اور اپنی پوری کمیونٹی کی حمایت سے ایک خاص مقصد کے فروغ کے لیے ایک ساتھ کھڑی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم مستقبل کی آواز ہی،, اور اگر ہم نے خود اپنی دیکھ بھال کی تو ایک روشن مستقبل ہمارا ہوگا جیسا کہ آج یہاں دس ہزار خواتین نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہمارے مستقبل کے لیے ہماری ماؤں ،بیٹیوں اور بہنوں کی کلی صحت اہم ہے۔