مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ملکوں میں سیاسی تبدیلی کے لیے ہنگامے جاری ہیں لیکن سعودی عرب میں حالات نسبتاً پُرسکون رہے ہیں۔ تا ہم وہاں بھی سیاسی بے چینی پھوٹ پڑنے کے بارے میں تشویش موجود ہے۔
یمن میں امریکہ کی سابق سفیر بابرا بوڈینی (Barbara Bodine) کہتی ہیں کہ ان ملکوں میں جو اب تک مصر اور تیونس جیسے سیاسی احتجاجوں اور انکے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں سے بچے ہوئے ہیں انہیں سب سے زیادہ تشویش سعودی عرب کے بارے میں ہے۔ ’’ وہاں تبدیلی لانے والے وہ تمام عوامل موجود ہیں جو ہم نے دوسرے ملکوں میں دیکھے ہیں۔ وہاں قیادت بہت بوڑھی ہو چکی ہے اور اپنے خول میں بند ہے۔ آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے اور آمدنی میں فرق اور بے روزگاری کی شرح بہت اونچی ہے‘‘۔
سعودی حکام نے سیاسی مظاہروں کو سختی سے دبا دیا ہے۔ مارچ کے شروع میں ملک کے مشرقی صوبے میں شیعہ اقلیت نے چھوٹے چھوٹے مظاہرے کیے تھے لیکن سیکورٹی فورسز نے انہیں جلد ہی کچل دیا۔
سی آئی اے میں سیاسی اسلام نامی پروگرام کے سابق سربراہ ایمیلے نکہلحی (Emile Nakhleh) کہتے ہیں کہ خطرے کی علامت جس پر کڑی نظر رکھنی چاہیئے، یہ ہے کہ مشرقی صوبے کے باہر احتجاج شروع نہ ہو جائیں۔ ’’میں یہ کہوں گا کہ سعودی عرب کمرے میں موجود دو ٹن کے ہاتھی کی طرح ہے جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ گڑ بڑ کا اصل امکان اس وقت ہو گا جب شیعہ آبادی والے مشرقی صوبے میں نہیں بلکہ جدہ جیسے مقام پر احتجاج ہونے لگیں‘‘۔
جدہ ملک میں نسبتاً لبرل شہر ہے خاص طور سے جب اس کا موازنہ دارالحکومت ریاض سے کیا جائے۔ سعودی عرب میں بادشاہت قائم ہے جس پر قدامت پسند سنی مسلمانوں کا غلبہ ہے۔
یہاں کسی قسم کی سیاسی مخالفت برداشت نہیں کی جاتی۔ اس کے باوجود جیسا کہ ایمیلے کہتے ہیں بعض سعودیوں نے شاہ عبداللہ کے نام ایک درخواست پر دستخط کیے جس میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ’’ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے 200 سے زیادہ سعودیوں نے مطالبہ کیا بلکہ درخواست کی کہ بادشاہ صحیح معنوں میں تبدیلی لائیں۔ ایک آئین ہو، پارلیمینٹ ہو جس کے پاس قانون سازی کے اختیارات ہوں،آزاد عدلیہ ہو۔ غرض یہ کہ بڑے دورس مطالبات کیے گئے تھے‘‘۔
تاہم باربرا کہتی ہیں کہ سعودی عرب کے حکمران اس قسم کے مطالبات کا مثبت جواب نہیں دے سکیں گے۔
تبدیلی کے مطالبات پر سعودی عرب کی ناخوشی کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ اس نے ہمسایہ ملک بحرین میں ملٹری فورس بھیجی ہے تاکہ بحرین کی حکومت احتجاج کو کچل سکے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس اقدام کی وجہ سعودیوں کا یہ خوف تھا کہ یہ احتجاج ایران کی ایما پر کیے گئے ہیں۔
لیکن انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایک نئی رپورٹ میں سعودی اندیشوں کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بحرین کی حکومت کی کارروائی اور سعودی مداخلت کو خطرناک اقدامات کہا گیا ہے جن کے نتیجے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ بحرین کی آبادی میں اکثریت شیعوں کی ہے جب کہ حکومت پر سنیوں کا غلبہ ہے۔
ایمیلے کہتے ہیں کہ جن عرب ملکوں نے لیبیا پر نو فلائی زون کے قیام کی حمایت کی تھی، انہوں نے بحرین میں سعودی عرب کی کارروائی کی حمایت نہیں کی ہے۔ ’’یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ بہت سے عربوں نے لیبیا پر مغربی ملکوں کے نو فلائی زون اور لیبیا پر مغربی فوجی حملوں کی حمایت کی ہے لیکن بحرین میں سعودی عرب کی مداخلت کی مخالفت کی ہے کیوں کہ بحرین میں سعودی مداخلت کو شیعہ مخالف چیز سمجھا جاتا ہے جس کا مقصد بحرین کی حکومت کی حفاظت نہیں بلکہ فرقہ پرستی کا فروغ ہے‘‘۔
اس علاقے میں سعودی عرب امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ اگر ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی ہوئی اور بادشاہت میں تبدیلی کے آثار ظاہر ہوئے، خاص طور سے ایسی حالت میں جب انٹیلی جنس نے بے چینی میں القاعدہ کے ملوث ہونے کا اشارہ دیا ہے تو امریکہ کا رویہ کیا ہوگا۔
القاعدہ سعودی بادشاہت کی سخت مخالف ہے خاص طور سے امریکہ کے ساتھ اس کے اتحاد کی وجہ سے۔ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا تعلق ایک مالدار سعودی خاندان سے ہے۔
یہ اندیشے بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اگر سعودی عرب میں ہنگامے ہوئے، تو تیل کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں، سعودی عرب کا نمبر روس کے بعد دوسرا ہے ۔
تبدیلی کے مطالبات پر سعودی عرب کی ناخوشی کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ اس نے ہمسایہ ملک بحرین میں ملٹری فورس بھیجی ہے تاکہ بحرین کی حکومت احتجاج کو کچل سکے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس اقدام کی وجہ سعودیوں کا یہ خوف تھا کہ یہ احتجاج ایران کی ایما پر کیے گئے ہیں۔ لیکن انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایک نئی رپورٹ میں سعودی اندیشوں کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بحرین کی حکومت کی کارروائی اور سعودی مداخلت کو خطرناک اقدامات کہا گیا ہے جن کے نتیجے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ بحرین کی آبادی میں اکثریت شیعوں کی ہے جب کہ حکومت پر سنیوں کا غلبہ ہے۔