سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نااہلی کیس میں متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جلد مختصر فیصلہ سنانے کی کوشش کریں گے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت نے نا اہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک بھی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق نہیں بنی۔ پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے۔
عوام کے منتخب نمائندوں کی تا حیات نا اہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت جمعے کو بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے کی۔
سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
اس کیس سے متعلق عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہِ راست دکھائی جا رہی ہے۔ ملک کے کئی ٹی وی چینلز بھی اس عدالتی کارروائی کو نشر کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے 2018 میں آئین کے آرٹیکل 62-ون ایف کے تحت نا اہل ہونے والے اراکینِ پارلیمنٹ کی نا اہلی کو تاحیات قرار دیا تھا۔ متعدد درخواست گزاروں نے تاحیات نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
جمعے کو سماعت میں استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے سربراہ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا۔
مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس عدالت نے پبلک نوٹس جاری کیا جس کی وجہ سے سماعت میں آیا ہوں۔ اس عدالت کے سامنے بنیادی سوال اسی عدالت کے سابقہ فیصلے کا ہے۔
SEE ALSO: صادق اور امین کی شرائط آمروں نے اپنے لیے کیوں نہیں رکھیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن سے متعلق تمام کیسز آئندہ ہفتے ریگولر بینچ میں مقرر ہوں گے۔ اس کیس میں انفرادی لوگوں کے مقدمات نہیں سنیں گے۔ انفرادی لوگوں کے الیکشن معاملات آئندہ ہفتے سنیں گے۔ تب تک ہو سکتا ہے اس کیس میں آرڈر بھی آ چکا ہو۔
چیف جسٹس نے کیس کے دوران ریمارکس دیے کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں؟ ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟ سابق فوجی آمر کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پر جنرل ایوب خان کے بعد سے تجاوز کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے۔ پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہو جاتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ صرف کاغذاتِ نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو کیا تاحیات نا اہلی ہو گی؟ ایک جنرل نے یہ شق آئین میں ڈال دی تو کیا ہم سب پابند ہو گئے؟
انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ سادہ قانون سازی سے آئین میں دی گئی شقوں کو نہیں بدلا جا سکتا۔ مگر سپریم کورٹ آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتی ہے۔
بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو تشریح کے لیے آئین میں دیے گئے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین نے نہیں کہا تھا نا اہلی تاحیات ہے۔ یہ ہم نے کہا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے نا اہلی سے متعلق کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی۔ پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے۔
SEE ALSO: تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت؛ 'اگر 2002 میں قائدِ اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہو جاتے'چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب کیس میں سزا یافتہ شخص کے لیے تو نا اہلی کی مدت 10 سال طے ہے۔ پھر یہاں نا اہلی کی مدت تا حیات کیسے ہوئی؟
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں کاغذات جمع کراتے وقت جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے پاس کتنے گرام سونا ہے؟ آپ گھر جا کر سونا تولیں گے پھر بتائیں گے۔ آپ اگر وہ انگوٹھی بھول گئے جو بیوی نے پہن رکھی ہے تو کیا تاحیات نا اہل ہو جائیں گے؟ ایسی چیزوں میں جائیں گے تو لوگوں کا آئین پر اعتماد کم نہیں ہو گا؟
چیف چسٹس نے کہا کہ آئین وکلا کے لیے نہیں عوام کے لیے ہے۔ آئین کو آسان کریں۔ آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی اٹھ جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا اور ایمان دار ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جب پارلیمنٹ نے نا اہلی کی مدت طے کی تو اب یہ سوال اکیڈمک ہے نا اہلی کی مدت کیا ہو گی۔ پارلیمنٹ کہہ چکی ہے نا اہلی پانچ سال ہو گی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پورا پاکستان پانچ سال نا اہلی مدت کے قانون سے خوش ہے۔ کسی نے قانون کو چیلنج ہی نہیں کیا۔
استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے سربراہ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے کیس میں بیٹے سے تخواہ نہ لینے پر تا حیات نا اہل کیا گیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو نواز شریف کا نام لینے سے روک دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس عدالت میں کسی کا نام مت لیں۔ میں نہیں چاہتا یہاں سیاسی لوگوں کے نام لیے جائیں یا اس معاملے کو سیاسی رنگ دیا جائے۔ جو شخص خود عدالت نہیں آیا اس کی وکالت بھی نہ کریں۔
بعد ازاں کیس کی سماعت میں وقفہ کیا گیا اور اس کی سماعت جمعے کی نماز کے بعد تک ملتوی کر دی گئی۔
SEE ALSO: کیا عمران خان اور نواز شریف الیکشن لڑ سکیں گے؟واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کی شق 62-ون ایف کے تحت نا اہل قرار دیے گئے کسی بھی شخص کے لیے سزا کی مدت کا کوئی تعین نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے اس شق کے تحت بھی کسی شخص کو سزا سنائی گئی تو اس سے تعبیر کیا گیا کہ وہ کسی عوامی عہدے کے لیے تاحیات نا اہل ہے۔
ستمبر 2020 میں وجود میں آنے والے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپریل 2022 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ کیا اور شہباز شریف کی قیادت میں حکومت قائم کی تو اس حکومت نے اپنے آخری دنوں میں جون 2023 الیکشن ایکٹ میں ترامیم منظور کیں۔
الیکشن اصلاحات بل 2017 میں ترمیم کی گئی اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل منظور کیا گیا۔ بل میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت الیکشن ایکٹ میں ترمیم تجویز کی گئی۔
الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی سزا پانچ سال مقرر کی گئی۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں تبدیلی کے بعد پانچ سال سے زیادہ نا اہلی کی سزا نہیں ہو گی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا۔
اس بل کی سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد کہا جا رہا تھا کہ اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین کو ہو گا جن کی تاحیات نا اہلی ختم ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
نواز شریف اور جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر نا اہل کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر مختلف بار کونسلز اور دیگر درخواست گزاروں کی اپیلیں یکجا کرکے کیس سماعت کے لیے مقرر کیا۔