امریکہ کی عدالت عظمیٰ نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا ہے کہ پولیس گرفتار شخص کے موبائل فون کی بغیر سرچ وارنٹ کے تلاشی نہیں لے سکتی۔
عدالت نے جمعرات کو حکم دیا کہ سیل فون کی تلاشی کے لیے وارنٹ کا موجود ہونا لازم ہے، کیونکہ یہ طاقتور آلات ہیں جن میں بہت سی اطلاعات ہوتی ہیں۔ تاہم، عدالت نے توجہ دلائی کہ کچھ ہنگامی نوعیت کی صورت حال میں، وارنٹ کے بغیر تلاشی لینے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
یہ مقدمہ دو افراد نے دائر کیا تھا جن کا اصرار تھا کہ پولیس کی طرف سے ’نامناسب تلاشی‘ لینا آئین کی چوتھی ترمیم کے تحت دیے گئے حق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی فیصلہ دیا کہ ’ایئریو‘ نامی ٹی وی کمپنی کاپی رائٹ کے زمرے میں آنے والے پروگراموں کو دوبارہ نشر کرکے دراصل کوپی رائٹ کے قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے، جب کہ ایسے عمل کے عوض وہ اصل براڈکاسٹ نیٹ ورکس کو ادائگی نہیں کرتی۔
اس کمپنی کے امریکہ بھر میں ہزاروں کی تعداد میں اینٹینا نصب ہیں، جن کے ذریعے ہوا کے دوش پر سگنل پکڑ لیے جاتے ہیں، اِن مندرجات کو اسٹور کیا جاتا ہے اور ایئریو کے گاہکوں کو فراہم کیے جاتے ہیں۔
اِن خدمات کے عوض ’ایئریو‘ اپنے صارفین سے ہر ماہ آٹھ یا 12 ڈالر وصول کرتا ہے، اور بقول اُس کے، یہ قانون کے عین مطابق ہے،بالکل اُسی طرح جیسے ’کلاؤڈ سروسز‘ انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے کوپی رائٹ والا ڈیٹا صارفین کو فراہم کرتا ہے۔ ’امریکن براڈکاسٹنگ کمپنیز‘ یہ استدلال پیش کرتی ہیں کہ وہ کیبل کمپنی کی طرز پر کام کر رہی ہیں، جو ’کنٹینٹ‘ کے استعمال پر ادائگی کرتی ہے۔
امریکی نشریاتی اداروں کے حق میں یہ فیصلہ، جس کی حمایت میں چھ اور مخالفت میں تین جج صاحبان تھے، ’کنٹینٹ‘ کو دوبارہ نشر کرنے پر کیبل اور سیٹلائٹ ٹی وی سسٹمز، براڈ کاسٹرز کو فیز میں ملنے والی اندازاً تین ارب ڈالر کی رقم کو تحفظ مل گیا ہے۔ اِس میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ اس فیصلے کا گوگل، مائکروسافٹ اور ڈراپ باکس جیسی کمپنیوں کی طرف سے ’کلاؤڈ ‘ کے ذریعے فراہم کی جانے والی خدمات پر لاگو نہیں ہوگا۔