انسانی رویے سوچ اور احساسات کا مرکب ہوتے ہیں۔ انسان جتنا جلدی اپنی سوچ اور احساسات سے نمٹنا سیکھ لے اس کا زندگی کی طرف نظریہ اتنا ہی جلد مثبت ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی ایک رپورٹ کے مطابق سات سو سے زائد امریکی اسکول منفی جذبات سے نبرد آزما بچوں کو مدد فراہم کرنے کے لئے انسانی نفسیات کی خصوصی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکہ میں اسکول شوٹنگز کے واقعات عام ہیں اور کسی ایسے ہی غیر متوقع سانحے سے نمٹنے کے لئے بچوں کو اسکولوں میں باقاعدہ حفاظتی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔ ایسی چیزیں یقیناً ننھے ذہنوں پر دیرپا اثر چھوڑتی ہیں اور پھر کرونا وبا کی آمد نے تو جیسے دو دھاری تلوار کا کام کیا ہے۔
پہلے طویل عرصے تک اسکول اور دوست چھٹ جانے کے ساتھ گھر کی چار دیواری تک محدود ہوجانا پھر وبا کی وجہ سے بڑی تعداد میں اموات کی خبریں، بہت سوں کے والدین کا روزگار چھن جانا اور گھر میں معاشی تنگی نے بچوں کو ذہنی طور پر مزید متاثر کیا۔
SEE ALSO: جنوبی ایشیا میں کرونا وبا کے دوران 40 کروڑ سے زائد بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی: یونیسیفامریکی ریاست مشی گن کے پا۔پا (Paw Paw) ڈسٹرکٹ کے ایک اسکول میں گزشتہ سال دو طالبعلموں کی خودکشیاں اور اس سال ستمبر میں اسکول کھلنے کے بعد سےخودکشی کی تین ناکام کوششیں ہو چکی ہیں۔
کچھ ہی روز پہلے مشی گن ریاست ہی کے ایک اسکول میں شوٹنگ کے نتیجے میں چار طالبعلم بھی ہلاک کر دیے گئے۔ اس صورتحال میں بچوں میں اضطرابی کیفیت کوئی غیر فطری بات نہیں، لیکن اگر ان مسائل سے نمٹنے کے لئے کچھ نہ کیا جائے تو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت بھی متاثر ہوتی ہے۔
بچوں کی ذہنی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے پا-پا اسکول نے کگنیٹو بیہیوئیورل تھراپی "cognitive behavioral therapy" یعنی ایسی تھراپی یا علاج متعارف کرایا ہے جو انہیں یہ آگہی دے گا کہ انسان کے احساسات اور جذبات اس کے ردعمل پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں اور کس طرح سوچ میں تبدیلی لا کر ان پر نہ صرف قابو پایا جا سکتا ہے، بلکہ رویے مثبت کئے جا سکتے ہیں۔ اس کوشش کو طالبعلموں کے لئے جذباتی اور سماجی تعلیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے اور اسکول میں ہر عمر کے بچے کو ایسی تعلیم دی جا رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سال ستمبر میں اسکول کھلنے پر عام خیال تھا کہ بچوں کی زندگی دوبارہ معمول پر آئے گی لیکن ان کی واپسی پر اندازہ ہوا کہ یہ بچے بہت الجھی ہوئی ذہنی کیفیت میں ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ جذباتی طور پر مضطرب بچوں کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے، متعدد اسکولوں نے جدید نفسیات کے اصولوں پر بچوں کو جذباتی اور سماجی تعلیم دینے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔
یہ تعلیم بچوں کو اضطرابی کیفیت، صدمے اور ڈپریشن کے ساتھ ساتھ مایوسی کی وجہ سے اپنی جان لینے کی خواہش سے چھٹکارہ پانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اکثر اسکولوں میں فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے ذہنی اضطراب کی کیفیات ظاہر کرنے والے بچوں کو علیحدہ سے کسی کلاس میں بٹھا کر ان کے جذبات اور احساسات پر بات کی جاتی ہے۔ تاہم جدید نفسیات بتاتی ہے کہ جذباتی اور سماجی تربیت دن کے کسی ایک گھنٹے میں کسی خصوصی نشست میں ممکن نہیں مگر ایک ایسے ماحول میں کارآمد ہوتی ہے جہاں یہ اسکول کے طریقہ کار میں رچی بسی ہو اور اساتذہ ہوں یا طالبعلم، سب ہی پر اس کا اطلاق ہو۔
مثلاً اس تربیت میں غصے کا اظہار کرنے والے کسی ایک طالبعلم پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اس عمر کے تمام بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ''صبح جب ناشتے کے وقت ہمیں کبھی پتہ چلتا ہے کہ امی ہمارا پسندیدہ سیریل خرید کر لانا بھول گئیں تو ہم غصے میں ہوتے ہیں اور یہ بات امی کو اداس کرتی ہے۔ جب ہمیں غصہ آئے تو ایسے وقت ہم یہ بھی یاد کر سکتے ہیں کہ وہ کونسی دوسری چیزیں ہیں جو ہمیں کھانے میں پسند ہیں اور امی سے انہیں بنانے کے لئے کہہ سکتے ہیں اس سے ہم بھی خوش رہیں گے اور امی بھی"۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس طرح، بچوں کو دو اہم طرح کے احساس، غصے اور اداسی کے بارے میں آگہی دینے کے ساتھ ساتھ اس منفی احساس کو کس طرح تبدیل کرنا ہے یہ بھی سکھا دیا گیا۔
ذرا بڑی عمر کے بچوں کو غم اور غصے سے نمٹنے میں مدد کے لئے لمبے لمبے سانس بھرنے کے ساتھ شہادت کی انگلی کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں پر پھیرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ یہ مشق بچوں کو ذہن پرسکون رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
انسانی رویوں کی تعلیم کے ماہر ایرک کلارک کا کہنا ہے کہ نئے اسکول سال میں جذبات سے مغلوب بچوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ ان کے ذہنوں میں کیا چل رہا ہے۔ یہ بچے اپنے مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔ یہ ماسک پہن کر اسکول آتے ہیں اور انہیں نہیں پتہ کہ وبا ختم ہوگی یا پھر اس کی کوئی نئی قسم آجائے گی۔ یہ نہیں جانتے کہ ان کے والدین کی ملازمت برقرار رہے گی یا نہیں، ان کا اسکول کھلا رہے گا یا نہیں، ان کے پیارے اس کی لپیٹ میں تو نہیں آئیں گے؟
ایرک کلارک کے مطابق "ہم بچوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ مستقبل میں جو ہونے والا ہے ہم اس پر تو قدرت نہیں رکھتے مگر ہم اپنے ردعمل پر ضرور قادر ہیں اور ہمیں اسی پر توجہ دینی ہے"۔
پا-پا اسکول ڈسٹرکٹ کے ایک ہزار سے زائد ملازمین کو جن میں بس ڈرائیورز تک شامل ہیں، یہ تربیت دی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق بچوں سے رابطے میں آنے والے ہر شخص کو خواہ وہ اسکول کا سپرنٹنڈنٹ ہو یا صفائی کرنے والا، یہ پتہ ہونا چاہئیے کہ کونسی بات بچوں کو مضطرب کر سکتی ہے اور ایسے بچے کی شناخت پر اس کی مدد کے لئے درست طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔
[اس خبر کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے]