اگر اپنے دانتوں کی تکلیف اس وجہ سے برداشت کررہے ہیں کیونکہ آپ کو اس انجکشن سے ڈر لگتا ہے جسے دانتوں کا ڈاکٹر مسوڑھوں میں لگاتا ہے تاکہ دانت سن ہوجائیں اور روٹ کینال کے دوران مریض کو تکلیف نہ ہو۔
یہ آپ اکیلے کا خوف نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس میں مبتلا ہیں۔ لیکن اب ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دانتوں کے مریضوں کو ڈینٹسٹ کے انجکشن سے نجات ملنے والی ہے اور سائنس دانوں نے ایک ایسی بوٹی ڈھونڈلی ہے جس کا رس اتنا ہی مؤثر ہے جتنا کہ دانت سن کرنے والے انجکشن۔
برطانیہ کی کیمرج یونیورسٹی کے ماہرین کا کہناہے کہ ایکمیلا اولریسی(Acmella oleracea) پر ان کے تجربات کامیاب رہے ہیں اور اس بوٹی کے اجزا سے تیار کردہ محلول کا استعمال دو سال کے اندر شروع ہوجائے گا۔
ایکمیلا کا پودا زیادہ تر برازیل کے شمال میں پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ جنوب مشرقی ایشیا کے کئی علاقوں میں بھی ملتا ہے، جہاں اکثرجگہوں پر یہ دانت درد کی بوٹی کے نام سے مشہور ہے۔ دانت درد کے علاوہ اسے بدہضمی ، گلے کی خرابی اور نزلے کےعلاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اس پودے پر پیلے رنگ کے خوش نما پھول لگتے ہیں۔ اس کے پتوں کی ایک مخصوص اور تیز خوشگوار مہک ہوتی ہے جس کی وجہ سے اسے سلاد میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایکمیلا کے پتوں کو مرچوں اور لہسن کے ساتھ پیسنے سے مزیدار چٹنی بنتی ہے ۔ جنوبی ایشیا کے کئی علاقوں میں اس کے پتے مصالحے کے طورپر کھانوں میں ڈالے جاتے ہیں۔
آسام کے قبائلی علاقوں میں چکن کی ایک مخصوص ڈش ایکمیلا کے پتوں کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔ بھارتی قبائلی علاقے بودو لینڈ میں نزلے اور کھانسی کے علاج کے لیے اس بوٹی کو ابال کرپینے کا رواج عام ہے۔
وکی پیڈیا کے مطابق ایکمیلا کے پتوں کا ذائقہ بہت تیز ہوتا ہے، جو زبان پر سنساہٹ کا احساس پیداکرتا ہے اور اسے زیادہ دیر منہ میں رکھنے سے زبان سن ہوجاتی ہے۔ اس کا رس گلے میں ٹھنڈک کااحساس دلاتا ہے جس سے گلے کی سوزش میں افاقہ ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے کئی علاقوں میں اس کی کونپلیں بیڑے اورچوسنے والے تمباکو کی گولیوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔
اگرچہ دور افتادہ علاقوں میں رہنے والے قدیم قبائل صدیوں سے ایکمیلا اولریسی کو مختلف بیماریوں کے علاج اور اپنے کھانوں کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے استعمال کررہے ہیں لیکن ماہرین پر یہ انکشاف اتفاقیہ ہوا کہ اس پودے میں دانتوں کو سن کرنے والے انجکشن کا متبادل بننے کی خاصیت موجود ہے۔
یہ کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک برطانوی سائنس دان ڈاکٹر فرانسکوئس باربرا فریڈ مین، 1975ء میں براعظم امریکہ میں دریائے ایمزن کےاطراف میں میں واقع سب سے بڑے برساتی جنگلات پر تحقیق کے لیے وہاں گئیں اور انہوں نے اپنی زندگی کے لگ بھگ 30 سال ان گھنے جنگلات میں گذارے، جہاں کئی علاقوں میں روشنی کا گذر بھی بمشکل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر باربرا کا کہناہے کہ ایک بار پیرو کے علاقے میں گھنے جنگلات سے گذرتے ہوئے انہیں اپنی عقل داڑھ میں شدید درد ہوا۔ ان کے قبائلی گائیڈ نے تکلیف بھانپ کر ایک بوٹی کے چند پتے توڑے اور انہیں دانتوں میں رکھنے کے لیے کہا۔ باربرا کا کہناہے کہ پتے رکھنے سے تقریباً گھنٹے بھر کے لیے درد جاتا رہا۔ جب درددوبارہ اٹھا تو گائیڈ نے، جس نے کچھ شاخیں توڑ کر اپنے پاس رکھ لی تھیں، چند اور پتے چبانے کے لیے دیے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ تین چار بار پتے دانتوں میں رکھنے سے ان کا درد جاتا رہا۔ اور وہ اس واقعہ کو بھول بھال گئیں۔
کئی برس بعد کے بعد جب وہ ایمزن سے برطانیہ واپس آئی اورانہوں نے اپنے ایک ساتھی کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا جس نے تجسس اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ اگلی بار واپسی پر وہ اس جنگلی بوٹی کو اپنے ساتھ لائیں، تاکہ وہ اس پر تحقیق کرسکیں۔
ڈاکٹر باربرا فریڈ مین بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اور ان کے دوست نے کچھ عرصے بعد انہیں بتایا کہ ان کی تحقیق کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے اس بوٹی کے اجزا سے ایک محلول تیار کیا ہے، جسے مسوڑھوں پر لگانے سے وہ تقریباً ایک گھنٹے کے لیے سن ہوجاتے ہیں۔ اور اس دوران اگر دانتوں کی سرجری کی جائے تو مریض کو قطعا تکلیف نہیں ہوتی۔
تجرباتی عمل میں کامیابیوں کے بعد ڈاکٹر فریڈ مین نے کیمرج یونیورسٹی کے تجارتی شعبے کے تعاون سے ایک کمپنی قائم ہے جس نے ایکمیلا اولریسی کے اجزا سے ایک لوشن تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ ان کا کہناہے کہ دانتوں کے ڈاکٹر اس لوشن کو انجکشن کے ایک مؤثر متبادل کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوشن، دانت کے درد اور بچوں کو دانت نکلنے کے دوران ہونے والی تکلیف اور بے چینی سے بھی نجات دلاتا ہے۔ جب کہ اس کا استعمال پیٹ کی خرابی کے علاج میں بھی فائدہ مند ہے۔
ڈاکٹر بابرا فریڈ کا کہناہے کہ 2014ء تک قدرتی اجزا پر مشتمل یہ دوا مارکیٹ میں فروخت ہونا شروع ہوجائے گی۔