فرانسسکو ایالا سائنس اور مذہب کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ اس مالیکولر بیالوجسٹ نے نظریہ ارتقا میں انقلابی تبدیلی پیدا کر کے بیماریوں کی روک تھام کےنئے طریقوں کی راہ نکالی ہے اور معاشرے کو درپیش اخلاقیات اور مذہب کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
ایالا 1934 ءمیں میڈرڈ میں پیدا ہوئےتھے جب اسپین کی اس خانہ جنگی کوختم ہوئے ابھی چند ہی سال گزرے تھے جس نے ان کےآبائی ملک کو بری طرح منقسم کر دیا تھا اور سپین کی اشرافیہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑاتھا۔ لیکن الایا کا خاندان جو ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور کا مالک تھا سپین ہی میں رہا اور الایا ہسپانوی ڈکٹیٹر شپ کے دور میں پروان چڑھے۔ وہ اور ان کے بھائی بہن کیتھولک اسکولوں میں پڑھتے تھے۔
فرانسس کو ایک پادری نے سائنس کی طرف مائل کیا تھا۔ یونیورسٹی آف میڈرڈ سے فزکس کی ڈگری لینے کے بعد انہوں نے سلامانکا (Salamanca) کے تھیولوجیکل سینٹر کا رخ کیا اور 1960ء میں وہاں ایک پادری بن گئے۔ لیکن اگلے ہی سال انہوں نے راہب کے پیشے کو خیر باد کہتے ہوئے نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں ارتقائی جنیٹکس کی تعلیم شروع کی کیوں کہ وہ انسانوں کو سمجھنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہم کہاں سے آئے ہیں۔
1964 ءمیں ایالا نے اسی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔انہوں نے اپنی ریسرچ کا آغاز پھلوں پر منڈلانےو الی مکھیوں سے شروع کیا تھا لیکن گزشتہ20 سال سے انہوں نے اپنی توجہ، پیراسائٹ پروٹوزوا ( parasitic protozoa ) پر مرکوز کی، جو ایک واحد خلیے پر مشتمل ایک عضویہ ہے جو بڑی بڑی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔
مسٹر ایالا کو معلوم ہواکہ وہ پیرا سائٹ لاکھوں امریکیوں کو متاثر کرنے والی ایک مہلک بیماری، چگاس ( Chagas) کاسبب بنتاتھا۔یہ پیراسائٹس جنسی طریقے سے نہیں بلکہ کلوننگ کے ذریعے پیدا ہوتے تھے۔
مسٹر ایالا کہتے ہیں کہ ہر پیراسائٹ ایک سے دو، دو سے چار میں تبدیل ہوتا ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ نسل در نسل ،اور ہزاروں لاکھوں برسوں تک چلتا رہتا ہے۔
اس دریافت کے نتیجے میں ایالا کو ان پیراسائٹس یا طفیلی خلیوں سے ملتے جلتے ان پیراسائٹس کا پتہ چلا جو ملیریا اور گرم مرطوب علاقوں میں پھیلنے والی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ہم شواہد کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ ملیریا کی وبا کا آغاز صرف گزشتہ پانچ ہزار برسوں میں ہوا تھا ، اگرچہ یہ پیراسائٹ لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس لیے ارتقائی پیمانے پر یہ ایک بہت جدید انسانی بیماری ہے۔
فرانسسکو ایا لاکہتے ہیں کہ سائنس اور عقیدہ دونوں جب ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں تو ان دونوں کو نقصان پہنچتاہے۔
ایالا کہتے ہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ملیریا پہلی بار کسی ایک مچھر کے ذریعے چمپنزیوں سے انسانوں کو منتقل ہوا تھا۔ ایالا نے ،جن کے ایک ہزار تحقیقی جائزوں کی رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں ، ایک حالیہ تحقیق میں کہا ہے کہ گوریلے اور چمپینزییز انسانی ملیریا کی وجہ بننےوالے پیراسائٹ کے لیے ایک بہترین آماجگاہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب اگلا مرحلہ ا ویکسینیں اور ادویات بنانے والے ماہر ین اور فزیشنز کا ہے کہ وہ اپنا کام کرتے ہوئے ان تازہ معلومات سے فائدہ اٹھائیں۔
ایک سائنس دان کے طورپر کام کرنے کے ساتھ ایالا نے مذہب اور سائنس پر بھی بہت کچھ لکھاہے اور لیکچر دیے ہیں۔سابقہ راہب کہتے ہیں کہ نظریہ ارتقا مسیحی عقیدے سے مطابقت رکھتا ہے۔ خدا پر یقین اور یہ اعتقاد کہ زندگی کا کوئی مقصداور معنیٰ ہوتے ہیں اور یہ قبول کرنا کہ زندگی میں اخلاقی قدریں اور مذہب میں بیان کی گئی دوسری چیزیں پوری طرح سائنس سے ہم آہنگ ہیں۔
ایالا نے 1971ء میں امریکی شہریت اختیار کرلی تھی۔ انہیں اپنے کام پر بہت سے ایوارڈز مل چکے ہیں جن میں نیشنل میڈل آف سائنس شامل ہے جو ملک کا سب سے بڑا سائنسی اعزاز ہے۔ اور اس سال انہیں روحانیت پر اپنے کام کے اعتراف میں ٹیمپلٹن پرائز(Templeton Prize) سے نوازا گیا ہے۔16 لاکھ ڈالر کی مالیت کے اس ایوارڈ سے حاصل ہونے والی رقم ایالا فلاحی کاموں کے لیے وقف کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔