کرونا وائرس صحت کے کتنے مسائل کا سبب بن رہا ہے، سائنس دانوں کو اب تھوڑا سا اندازہ ہونا شروع ہوا ہے۔ وبائی امراض کے ماہرین کے مطابق مریضوں اور صحت کے ںظام پر ان مسائل کے اثرات برسوں برقرار رہ سکتے ہیں۔
اب تک عام خیال یہ تھا کی کرونا وائرس سانس لینے میں دشواری پیدا کرتا ہے لیکن اب ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ یہ پھیپھڑوں کے علاوہ دوسرے اعضا کو بھی متاثر کرتا ہے اور انھیں ناکارہ بنادیتا ہے۔
ڈاکٹر ایرک ٹوپول کیلی فورنیا کے اسکرپس ریسرچ ٹرانسلیشنل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اسے صرف سانس کا وائرس سمجھتے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ یہ لبلبے پر بھی حملہ کرتا ہے۔ دل کو بھی نشانہ بناتا ہے۔ جگر، گردوں اور دماغ کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ابتدا میں ہمیں اس کا اندازہ نہیں تھا۔
سانس لینے میں مشکلات کے علاوہ کرونا وائرس کے مریضوں کا خون گاڑھا ہوجاتا ہے جس سے اسٹروک ہوسکتا ہے اور شدید سوزش کی وجہ سے کئی اعضا کام کرنا چھوڑ سکتے ہیں۔ وائرس سے دماغی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں جن میں سردرد، چکر آنا، الجھن کی کیفیت اور سونگھنے اور چکھنے کی حس ختم ہونے کے علاوہ دماغی دورے بھی پڑسکتے ہیں۔
ماہرین صحت کہہ رہے ہیں کہ ان مسائل سے صحت یابی سست، نامکمل اور مہنگی ثابت ہوسکتی ہے اور زندگی کے معیار پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
شکاگو میں نارتھ ویسٹرن میڈیسن اسپتال کی ڈاکٹر سعدیہ خان کہتی ہیں کہ کرونا وائرس کے وسیع اور متنوع اثرات انوکھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دل کے مریضوں کو انفلوئنزا ہوجائے تو پیچیدگیوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس کرونا وائرس میں حیران کن بات پھیپھڑوں کے علاوہ سامنے آنے والی بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔
ڈاکٹر سعدیہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ کرونا وائرس کے جو مریض بچ جائیں گے انھیں مستقبل میں اپنی صحت پر کافی وقت اور پیسہ خرچ کرنا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ جو مریض انتہائی نگہداشت میں یا وینٹی لیٹر پر رہے، انھیں دوبارہ متحرک ہونے اور قوت حاصل کرنے میں طویل عرصہ لگے گا۔
ڈاکٹر سعدیہ کا کہنا تھا کہ اسپتال میں گزارے ہوئے ہر دن کے بدلے پرانی قوت حاصل کرنے میں کم از کم سات دن لگیں گے۔ اور جن لوگوں کی عمر زیادہ ہے، وہ شاید کبھی پہلے کی طرح صحت مند نہیں ہوپائیں گے۔
اگرچہ ڈاکٹروں کی توجہ پہلے ان کم مریضوں پر رہی جو بیماری کے شدید حملے کا شکار ہوئے لیکن اب وہ ان مریضوں کو بھی دیکھ رہے ہیں جنھیں اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، لیکن کئی ماہ بعد بھی وہ مکمل شفایاب نہیں ہوئے۔
جے بٹلر امریکہ سینٹرز فور ڈیزز کنٹرول اینڈ پریوینشن میں وبائی امراض کے شعبے میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کرونا وائرس کے طویل المدتی اثرات کو سمجھنے کے لیے کئی ٹیمیں تحقیق کررہی ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے جنھیں مسلسل تھکن کا سامنا ہے اور ان کا سانس پھول رہا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کب تک اس کیفیت میں مبتلا رہیں گے۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کی ڈاکٹر ہیلن سالسبری نے برٹش میڈیکل جرنل میں اس بارے میں ایک مضمون لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی علامات دو سے تین ہفتوں میں ختم ہوجاتی ہیں لیکن دس میں سے ایک مریض میں یہ عرصہ زیادہ ہوتا ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کے کئی مریضوں کے سینے کے ایکسرے ٹھیک آنے اور سوزش کی علامات نہ ہونے کے باوجود ان کی صحت بحال نہیں۔
ڈاکٹر ہیلن نے لکھا کہ اگر آپ پہلے ہفتے میں تین دن پانچ کلومیٹر دوڑتے تھے اور اب ایک منزل سیڑھیاں چڑھ کر سانس پھول جاتا ہے، یا اگر آپ کو مستقل کھانسی کی شکایت ہے اور معمول کے کام کرنے پر زیادہ تھکن سوار ہوجاتی ہے تو خدشہ ہے کہ آپ کبھی پرانی صحت دوبارہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔
نارتھ ویسٹرن میڈیسن میں دماغی امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر آئیگور کورلنک نے مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو انھیں معلوم ہوا کہ کرونا وائرس کے جن مریضوں کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا، ان میں سے نصف کو ذہنی مسائل درپیش ہیں۔ انھیں چکر آرہے ہیں یا دماغ حاضر نہیں، کسی بات پر توجہ دینے میں مشکل کا سامنا ہے، سونگھنے اور چکھنے کی حس متاثر ہے، تھکن ہے، پٹھوں میں درد ہے اور چند ایک کو دورے پڑے ہیں یا اسٹروک ہوا ہے۔
ڈاکٹر آئیگور کی تحقیق کے نتائج ایک طبی رسالے میں شائع ہوئے ہیں۔ انھوں نے ایسے مریضوں کے لیے ایک کلینک شروع کیا ہے تاکہ یہ جان سکیں کہ ان کے دماغی مسائل عارضی ہیں یا مستقل رہیں گے۔