فی الحال کوئی بھی یقین سے نہیں بتا سکتا کہ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد اس کے اثرات کتنے عرصے تک باقی رہ سکتے ہیں۔ یہ ایک نئی وبا ہے اور سائنس دانوں کے پاس اس کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ وہ ابھی تک اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اب تک اس عالمی وبا کے بارے میں جو کچھ سامنے آیا ہے وہ ان لوگوں کی جانب سے آیا ہے جو اس میں مبتلا ہوئے۔ کوویڈ 19 سے نجات پانے کے بعد اور کرونا ٹیسٹ نیگیٹو آنے بعد بھی ان میں کئی علامتیں ہفتوں اور مہینوں تک برقرار رہیں اور کرونا سے صحت یابی کے بعد اکثر لوگوں کا تجربہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
زیادہ تر لوگ وائرس کی لپیٹ میں آنے کے چند ہفتوں کے اندر تندرست ہو جاتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں مرض کی علامتیں کافی دنوں اور ہفتوں تک برقرار رہتی ہیں، جس میں سب سے زیادہ عام تھکاوٹ، سردرد، انجانے خوف اور پریشانی کی کیفیت اور پٹھوں کا درد ہے، جو مرض ختم ہو جانے کے بعد بھی کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
صحت یاب ہونے والے ایسے افراد جنہیں مرض کی شدت سے گزرنا پڑا اور انہیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ اور وینٹی لیٹر پر جانے کی ضرورت پڑی یا انہیں ڈائلاسس پر ڈالا گیا، انہیں بعد ازاں سنجیدہ نوعیت کے مسائل کا سامنا رہا۔
بعض واقعات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جن لوگوں کو وبا کے دوران نمونیا ہوا تھا، ان کے پھپھڑوں میں زخم پڑ گئے۔ اسی طرح دل کے امراض، گردوں میں خرابیاں اور جگر کے افعال میں پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ کرونا سے صحت یابی کے بعد جن لوگوں میں یہ پیچیدگیاں پیدا ہوئیں، ان میں سے بہت سوں میں یہ خرابیاں برقرار ہیں اور ان پیچیدگیوں کا علاج جاری ہے۔ اس کے متعلق اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس سے کب چھٹکارہ حاصل کر سکیں گے یا ان کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا کے جن مریضوں کو لمبی مدت تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہنا پڑا تھا، انہیں اب بھی بعض اوقات اپنے گھر پر آکسیجن یا ڈئلاسس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اسی طرح بعض افراد میں کرونا کے بعد ایسی علامتیں پیدا ہو گئی ہیں جن کے لیے لمبے عرصے تک علاج اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں اعصابی کمزوری اور یاداشت کی خرابی شامل ہیں۔
کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں میں خون میں کلاٹ بننے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جو بعض صورتوں میں دل پر حملے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اگر خون میں انجماد کی نوعیت سنگین نہ ہو، تب بھی خون کو پتلا کرنے والی دوا کی ضرورت پڑتی ہے اور جسم کے اندر خون کا اخراج روکنے کے لیے طرز زندگی کو بھی تبدیل کرنا پڑ سکتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر صورتوں میں کرونا وائرس کی زیادہ تر علامتیں صحت یاب ہونے کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔ تاہم، کچھ افراد میں وہ نامعلوم مدت کے لیے برقرار رہ سکتی ہیں۔
امریکہ میں کوویڈ 19 کے مریضوں پر ہونے والی طویل مطالعاتی تحقیق میں شامل ڈاکٹر تھامس مک گن، جن کا تعلق نیویارک کےفین سٹائن انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ سے ہے، کہتے ہیں کہ کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وائرس سے صحت یاب ہونے والا بعد میں کس صورت حال سے گزرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ فوراً ٹھیک ہو جائیں اور کچھ افراد کو ایک طویل عرصہ اس کے اثرات کے ساتھ گزارنا پڑے۔