بھارت کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار آئینی حیثیت ختم کر کے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا جس کے بعد جموں و کشمیر میں یہ پہلے انتخابات ہیں۔
ان انتخابات کا مقصد نچلی سطح تک کے تمام لوگوں کو اقتدار میں شریک کرنا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کے کے شرما کے مطابق 20 اضلاع کی ترقیاتی کونسلز کی کُل 280 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی۔
انتخابات کے باعث سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ فورسز کو کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے الرٹ کیا گیا تھا۔
کئی پولنگ اسٹیشنز پر رائے دہندگان کی قطاریں نظر آ رہی تھیں۔
پولنگ اسٹیشنز کے آس پاس پولیس اور نیم فوجی دستوں کے چاک و چوبند اہلکار تعینات تھے۔
ضمنی انتخابات میں اصل مقابلہ مرکزی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور جموں و کشمیر میں حال ہی میں قائم ہونے والے پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے درمیان تھا۔ تاہم آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نے بھی قسمت آزمائی کی۔
الیکشن کمشنر کے مطابق جموں و کشمیر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 57 لاکھ ہے۔ سابقہ مغربی پاکستان کے مہاجرین کو آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پہلی مرتبہ ووٹ کا حق حاصل ہوا ہے۔
پولنگ کے دوران وبائی مرض سے بچنے کے لیے اسٹاف اور رائے دہندگان دونوں کے لیے ماسک پہننا اور سماجی دوری رکھنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔
انتخابات میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین ووٹرز نے بھی بڑی تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
ووٹنگ کے لیے پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے والے تمام ووٹرز کی تلاشی لی گئی۔
سردی کے باوجود لوگ گھروں سے نکلے اور اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔