ہلری، ٹرمپ کے ایک دوسرے کی صلاحیت اور قوت فیصلہ پر سوال

ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن اور ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کی رات ریاست مِزوری کے شہر، سینٹ لوئس میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی میں منعقدہ دوسرے صدارتی مباحثے کے دوران مختلف معاملات پر ایک دوسرے کی پارٹی پالیسی اور حکمت عملی کو چیلنج کیا۔

دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے کے اخلاقی اقدار، سمجھ بوجھ، کارکردگی اور عزم پر سوال اٹھائے اور ساتھ ہی ملکی سکیورٹی میں بہتری لانے، داعش کے انسداد، انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خاتمے اور تجارت کے فروغ کے لیے عملی اقدام کا عزم کیا۔

مسلمانوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ صدر منتخب ہونے پر وہ مسلمانوں کے داخلے کے بارے میں سخت پوچھ گچھ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کیونکہ ایسے افراد کو امریکہ نہ آنے دیا جائے جو ''سخت گیر اسلامی نظریات'' میں یقین رکھتے ہیں، جو بات امریکی اقدار سے متصادم ہے۔

ساتھ ہی ٹرمپ نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ میں رہنے والے مسلمان شدت پسندی کے بارے میں قانون کے نفاذ سے وابستہ اہل کاروں کو بر وقت اطلاع دیں تاکہ شدت پسندی کے واقعات سے بچا جا سکے۔ انھوں نے ہلری کلنٹن اور اوباما پر الزام لگایا کہ وہ ''شدت پسند اسلام'' کا لفظ استعمال نہیں کرتے، جو کہ، بقول اُن کے، ''ایک حقیقت ہے''۔

ہلری نے کہا کہ امریکہ اسلام سے جنگ نہیں لڑ رہا، بلکہ یہ لڑائی داعش اور دیگر شدت پسند اور انتہا پسندوں کے خلاف ہے۔ جب کہ وہ خود اکثریتی معتدل مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ مسلمان امریکہ میں جارج واشنگٹن کے وقت سے موجود ہیں اور ان میں سے اکثر پُر امن، باصلاحیت اور بہت ہی کامیاب ہیں۔

ہلری کلنٹن نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ مسلمانوں، افریقی امریکیوں، ہسپانوی لوگوں کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں اُنھوں نے کہا کہ ٹرمپ نے مبینہ طور پر کیپٹن ہمایوں کے خاندان کے خلاف بات کی جو ایک قومی ہیرو ہیں، جنھوں نے ملک کے لیے جان نثار کی۔

اس سلسلے میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو آج کیپٹن ہمایوں زندہ ہوتا، کیوں کہ بقول اُن کے ''عراق جنگ کا فیصلہ درست نہیں تھا''۔

ایک اور سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ میں داخل ہونے سے قبل مسلمانوں سے نہ صرف ضروری تفتیش کی جائے گی بلکہ خاص طور پر شام سے آنے والے مہاجرین سے پیشگی پوچھ گچھ ہو گی تاکہ مشتبہ عناصر ملک میں داخل نہ ہو سکیں۔

شام کے بارےمیں ایک سوال پر ہلری کلنٹن نے کہا کہ وہ امریکی فوج کو شام میں تعینات کرنے کے حق میں نہیں ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ایسا کرنا درست حکمت عملی نہیں ہو گی۔

حلب کی صورت حال کو ''تباہ کُن'' قرار دیتے ہوئے کلنٹن نے کہا کہ بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے روس حلب کو تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ شام کی خانہ جنگی کے سلسلے میں وہ حکومتِ شام کو جنگی جرائم کے ارتکاب پر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گی۔

ٹیکس کے بارے میں سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ٹیکس کم کرنا چاہتے ہیں جب کہ بقول اُن کے ''کلنٹن ٹیکس بڑھانا چاہتی ہیں''۔

ایسے میں جب گزشتہ جمعے کو منظر عام پر آنے والی وڈیو ٹیپ میں ٹرمپ کو خواتین کے خلاف نازیبا کلمات کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس پر خود ری پبلیکن پارٹی کے چوٹی کے قائدین نے اُن کے خلاف بیانات دیے ہیں، ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پہلے ہی معذرت کر چکے ہیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ یہ معاملہ 2005ء کا ہے اور یہ کہ یہ بند کمرے کی گپ شپ تھی، جس پر وہ فخر نہیں کر سکتے۔ ''میں اس پر شرمندہ ہوں اور جو کچھ کہا گیا اُس سے نفرت کرتا ہوں''۔

تاہم اُنھوں نے کہا کہ وہ خواتین کی بہت عزت کرتے ہیں اور یہ کہ اس سے کہیں زیادہ اہم معاملات درپیش ہیں جو فوری توجہ طلب ہیں، جن کا ذکر ضروری ہے۔ اُنھوں نے اس بات کی تردید کی کہ اُنھوں نے کبھی کسی خاتون سے جسمانی زیادتی کی ہے۔

ہلری کلنٹن نے کہا کہ ماضی میں وہ ری پبلیکن امیدواروں کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کیا کرتی تھیں جب کہ پہلی بار وہ کسی ری پبلیکن امیدوار کی صدارتی نامزدگی پر انگلی اٹھا رہی ہیں جن کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ وہ ''صدر بننے کے لیے موزوں نہیں ہیں''۔

باوجود یہ کہ ٹرمپ نے معذرت کی ہے، ہلری نے کہا کہ ٹیپ میں وہی کچھ دکھایا گیا ہے جو بقول اُن کے ''فی الواقع ٹرمپ ہیں''۔ اُنھوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ''ٹرمپ نے اقلیتوں، مسلمانوں اور جنگی قیدیوں کا مذاق اڑایا ہے''۔

ٹرمپ نے ہلری کے شوہر، سابق صدر بِل کلنٹن پر وائٹ ہاؤس میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا۔

ٹرمپ نے کہا کہ صدر بننے پر وہ ہلری کلنٹن کی جانب سے 33000 لاپتا اِی میلز کے معاملے کی چھان بین کے لیے خصوصی استغاثہ تشکیل دیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ صدر بنے تو ہلری کلنٹن جیل میں ہوں گی۔

مباحثے کے آخر میں، ایک سوال پر کہ صدارتی امیدواروں کو ایک دوسرے کی کیا بات پسند ہے۔ ہلری کلنٹن نے کہا کہ اُنھیں ''ٹرمپ کے بچوں کے لیے بہت عزت ہے'' جب کہ ٹرمپ نے کہا کہ اںھیں ہلری کلنٹن کی یہ بات پسند ہے کہ وہ ''کبھی ہار نہیں مانتیں اور میدان میں ڈٹ کر لڑتی ہیں''۔