عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق یونان کی معیشت اور بینکاری نظام کی گزشتہ دو ہفتے کے دوران تباہی کے باعث اسے یوروزون کی زیر غور قرض کی رقم سے بہت بڑا قرض درکار ہو گا۔
یونان اور 18 یورپی ملکوں کے درمیان 86 ارب یورو کے ایک تیسرے بیل آؤٹ پر مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کے چند گھنٹے بعد پیر کی شام یورو زون کی حکومتوں کو یونان کے لیے مجوزہ قرض کی نتیجہ خیزی کے بارے میں آئی ایم ایف کی طرف سے ایک تازہ تجزیہ بھیجا گیا۔
یہ بیل آؤٹ حاصل کرنے کے لیے یونان کو اخراجات میں مزید کٹوتیاں اور اسٹرکچرل اصلاحات کرنا ہوں گی۔
اس دستاویز کے ’روئٹرز‘ اور دیگر خبر رساں اداروں تک پہنچنے کے بعد فنڈ نے اسے منگل کو واشنگٹن میں شائع کر دیا۔
سینیئر آئی ایم ایف حکام نے منگل کو کہا کہ قرض سے یونان کو بحال ہونے کا موقع ملے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپی ممالک کو یونان کو اپنے یورپی قرضہ جات بشمول نئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے 30 سال کی مدت دینا ہو گی۔
اگر قرض اس مدت میں ادا نہ ہو سکے تو اس میں مزید توسیع دینا ہو گی یا یونانی بجٹ کے لیے واضح سالانہ مالی منتقلیاں کرنا ہوں گی، یا پھر ایتھنز کو دیے جانے والے قرضوں کا کچھ حصہ معاف کرنا ہو گا۔
یہ دستاویز اس وقت سامنے آئی جب جرمن وزیر خزانہ وولف گینگ شوابل نے یہ انکشاف کیا کہ برلن حکومت کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ ایک اور بڑا بیل آوٹ قرض حاصل کرنے کی بجائے یوروزون سے کچھ دیر کے لیے باہر رہنا یونان کے لیے زیادہ سود مند ہو گا۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 29 جون کو یونانی بینکوں کی بندش اور سرمایے پر پابندیوں سے ’’ملک کی معیشت اور بینکاری نظام شدید متاثر ہوا ہے، جس سے قرضوں کی نتیجہ خیزی حال ہی میں شائع کی گئی رپورٹ کے اندازوں کے مقابلے میں مزید کم ہوئی ہے۔‘‘
’روئٹرز‘ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی یورپی ارکان نے یونانی ریفرینڈم سے تین دن قبل پہلی رپورٹ کی اشاعت روکنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
یونانی وزیرِ اعظم الیکسیس سیپراس اور ان کے سابق وزیر خزانہ یانیس واروفاکیس نے پہلی رپورٹ کی بنیاد پر اپنے اس مؤقف کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ مجوزہ بیل آؤٹ غیر نتیجہ خیز ثابت ہو گا اور یہ کہ یونان قرضوں میں چھوٹ مانگنے میں حق بجانب تھا۔
ریفرینڈم میں بیل آؤٹ کی شرائط کو مسترد کر دیا گیا تھا۔