سلامتی کونسل کی جانب سے یہ درخواست منظور کرنے کی صورت میں عالمی عدالت شام میں ہونے والے مظالم کی تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف قانونی کاروائی کرسکے گی۔
واشنگٹن —
سوئٹزرلینڈ کی قیادت میں دنیا کے 50 سے زائد ممالک اقوامِ متحدہ کی سلا متی کونسل سے شام کا معاملہ عالمی عدالت برائے جرائم (آئی سی سی) کو بھجوانے کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔
امریکی خبر رساں ایجنسی 'دی ایسوسی ایٹڈ پریس' نے ان ممالک کی جانب سے سلامتی کونسل کو بھجوایا جانے والے خط کی نقل حاصل کی ہے جس میں شام میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
مذکورہ خط میں اقوامِ متحدہ کے ایک تحقیقاتی پینل کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی موجود ہے جس میں شامی حکومت پر اپنے مخالفین کے ساتھ مارپیٹ کرنے اور انہیں جنسی تشدد اور پھانسی کی سزائوں کا نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی قیادت میں اقوامِ عالم کا یہ گروپ پیر کو اپنا یہ خط سلامتی کونسل کو پیش کردے گا۔
سلامتی کونسل کی جانب سے یہ درخواست منظور کرنے کی صورت میں عالمی عدالت شام میں ہونے والے مظالم کی تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف قانونی کاروائی کرسکے گی۔
دریں اثنا عالمی امدادی ادارے 'انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی' نے پیر کو جاری کی جانے والی اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ شامی بحران کے باعث خطے میں ایک بڑے انسانی المیے کے جنم لینے کا خطرہ ہے۔
رپورٹ میں تشدد کےباعث اپنا گھربار چھوڑ کر فرار ہونے والے شامی باشندوں کو درپیش مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شامی خاندانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جنسی تشدد کے خوف سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئی جس کے واقعات خوف ناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔
کئی دیگر امدادی اداروں نے بھی عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے شامی پناہ گزینوں کی امداد کے لیے مانگے گئے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
شام میں قیامِ امن کی عالمی کوششوں کے باوجود ملک میں پرتشدد واقعات اور باغیوں اور صدر بشار الاسد کی وفادار افواج کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پیر کو بھی شام کے فوجی طیاروں نے دارالحکومت دمشق کے ان نواحی علاقوں پر بمباری کی جہاں پر باغیوں نے اپنا قبضہ مستحکم کرلیا ہے۔
شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اتوار کو ملک کے مختلف حصوں میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور فوجی طیاروں کی بمباری میں کم از کم 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی 'دی ایسوسی ایٹڈ پریس' نے ان ممالک کی جانب سے سلامتی کونسل کو بھجوایا جانے والے خط کی نقل حاصل کی ہے جس میں شام میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
مذکورہ خط میں اقوامِ متحدہ کے ایک تحقیقاتی پینل کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی موجود ہے جس میں شامی حکومت پر اپنے مخالفین کے ساتھ مارپیٹ کرنے اور انہیں جنسی تشدد اور پھانسی کی سزائوں کا نشانہ بنانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی قیادت میں اقوامِ عالم کا یہ گروپ پیر کو اپنا یہ خط سلامتی کونسل کو پیش کردے گا۔
سلامتی کونسل کی جانب سے یہ درخواست منظور کرنے کی صورت میں عالمی عدالت شام میں ہونے والے مظالم کی تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف قانونی کاروائی کرسکے گی۔
دریں اثنا عالمی امدادی ادارے 'انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی' نے پیر کو جاری کی جانے والی اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ شامی بحران کے باعث خطے میں ایک بڑے انسانی المیے کے جنم لینے کا خطرہ ہے۔
رپورٹ میں تشدد کےباعث اپنا گھربار چھوڑ کر فرار ہونے والے شامی باشندوں کو درپیش مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شامی خاندانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جنسی تشدد کے خوف سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئی جس کے واقعات خوف ناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔
کئی دیگر امدادی اداروں نے بھی عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے شامی پناہ گزینوں کی امداد کے لیے مانگے گئے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
شام میں قیامِ امن کی عالمی کوششوں کے باوجود ملک میں پرتشدد واقعات اور باغیوں اور صدر بشار الاسد کی وفادار افواج کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پیر کو بھی شام کے فوجی طیاروں نے دارالحکومت دمشق کے ان نواحی علاقوں پر بمباری کی جہاں پر باغیوں نے اپنا قبضہ مستحکم کرلیا ہے۔
شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اتوار کو ملک کے مختلف حصوں میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور فوجی طیاروں کی بمباری میں کم از کم 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔