سینیٹ کے مارچ میں ہونے والے انتخابات میں ووٹنگ کے طریقۂ کار کے معاملے پر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان نوک جھونک کا سلسلہ جاری ہے جب کہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں ووٹ خریدنے سے متعلق ویڈیو نے سیاسی ہلچل مچا دی ہے۔
مذکورہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سابق وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک کے نام بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ویڈیو میں نظر آنے والے موجودہ وزیرِ قانون سلطان محمد خان نے وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر استعفی دے دیا تھا۔
اسپیکر قومی اسد قیصر اور پرویز خٹک نے مذکورہ ویڈیو اور اس سارے معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
ویڈیو سامنے آنے کے بعد اگست 2019 میں سینیٹ انتخابات کے دوران موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے 14 ووٹ کم ہونے پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی خریدوفروخت جسے عام اصطلاح میں ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مختلف ادوار میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں۔
پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین خفیہ رائے شماری سے سینیٹرز کو منتخب کرتے ہیں۔
سینئر سیاست دان رضا ربانی کے مطابق کوئی بھی رکن جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہے اور منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچا ہے اس کے لیے پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا لازم ہے کیوں کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے۔
لیکن پاکستان میں اس امانت میں خیانت کی شکایات عرصۂ دراز سے سامنے آ رہی ہیں۔ اگست 2019 میں سینیٹ چئیرمین صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد اکثریت کے باوجود ناکام ہوئی اور صادق سنجرانی کو ملنے والے 14 اضافی ووٹ بھی بعض ماہرین کے مطابق 'خیانت' کے سبب ہی ممکن ہوئے۔
ویسے تو قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ برسرِ اقتدار سیاسی رہنماؤں پر اپنے مخالفین کو ریاستی اداروں کے ذریعے انتقام کا نشانہ بنائے جانے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ مگر یہ سلسلہ 60 کی دہائی میں ایوب خان اور 70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ادوارِ میں تیز ہو گیا۔
ذیل میں ہم نے ماضی کے کچھ ایسے واقعات پر نٌظر ڈالی ہے جہاں وفاداریاں خریدنے اور خاص طور پر سینیٹ انتخابات میں پیسہ چلنے کے الزامات کے بعد حیران کن طور پر انتخابی نتائج تبدیل ہوتے رہے۔
سینیٹ انتخابات 2018
2018 کے سینیٹ انتخابات کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو توقعات کے برعکس دو، دو نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ اس وقت خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی تعد 16 جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین صرف پانچ تھے، جو سینیٹر منتخب ہونے کے لیے درکار مطلوبہ ووٹس سے کم تھے۔ لہذٰا کسی دوسری جماعت کے اراکین کی پارٹی سے بغاوت کے باعث ہی ان اراکین کی کامیابی ممکن ہوئی۔
سینیٹ کے 2018 کے انتخابات میں صرف حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف بلکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور افتاب احمد خان شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا۔
گو کہ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے زیادہ تر نقصان کو افتاب احمد خان شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی سے منحرف ہونے والے اراکین اسمبلی سے پورا کیا تھا۔ مگر پھر بھی اس کے اپنے 20 اراکین اسمبلی ہارس ٹریڈنگ کی زد میں آ گئے تھے۔
اُس وقت کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا ایک رُکن بھی ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہوا تھا۔
2018 کے سینٹ انتخابات کے بعد دو سابق خواتین اراکینِ صوبائی اسمبلی نے باقاعدہ طور پر پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف مقامی عدالت میں ہتکِ عزت کے دعوے بھی دائر کر رکھے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے علاوہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے سینیٹ کے انتخابات میں عرصہ دراز سے خریدوفروخت کے لیے کافی بدنام رہے ہیں۔ ماضی میں یہاں سے منتخب ممبران قومی اسمبلی سنینیٹ کے انتخابات میں سینیٹ کے لیے ممبران منتخب کرتے تھے۔ لہذٰا اسی بنیاد پر نہ صرف ممبران قومی اسمبلی آپس میں مل بیٹھ کر سودے طے کرتے تھے مگر اب انضمام کے بعد یہ سلسلہ ختم ہونے کو ہے۔
سینیٹ انتخابات 2012
2012 کے سینیٹ انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی نے باقاعدہ طور پر پارٹی کے عہدیداروں کو بیلٹ پیپرز دکھائے تھے جب کہ 2015 اور 2018 کے سینیٹ انتخابات میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے دوران اسمبلی ہال میں صحافیوں، افسران اور دیگر مہمانوں کا داخلہ ممنوع قراردیا گیا تھا۔
سیاسی خریدوفروخت کا یہ سلسلہ 2002 میں خیبرپختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کے دورِ حکومت میں بلکہ 2008 کی عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی اور 2013 میں پاکستان تحریکِ انصاف کی مخلوط حکومتوں میں جاری رہا۔ اس دوران بھی بعض سرمایہ کاروں نے بھاری سرمایہ کاری کے عوض ایوانِ بالا تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
خیبرپختونخوا میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات
1988 میں خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ ارباب جہانگیر خان کی خواہش کے برعکس جب سابق گورنر جنرل (ریٹائرڈ) فضل حق کو بعض اراکینِ اسمبلی نے سینیٹ کی نشست پر امیدوار نامزد کر دیا تو مبینہ طور پر نہ صرف مرحوم ارباب جہانگیر خان سے ناراض بلکہ بعض اراکینِ اسمبلی نے مراعات کے عوض اور بعض اداروں کے دباؤ میں اکر فضل حق کو بھاری اکثریت سے رُکن سینیٹ منتخب کرایا تھا۔
1991 میں سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر خیبر پختونخوا کے سابق گورنر کمانڈر خلیل الرحمان نے آزاد حیثیت میں 32 ووٹ لے کر سیاسی حلقوں کو حیران کر دیا تھا۔ اُس وقت ایک مذہبی سیاسی جماعت کے صرف دو ممبران اسمبلی تھے جنہوں نے کمانڈر خلیل الرحمان کے تجویز اور تائید کنندگان کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ بعد میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران بشمول حکمران جماعت مسلم لیگ کے ممبران اسمبلی نے کمانڈر خلیل الرحمان کو مبینہ طور پر ووٹ دیے تھے۔
SEE ALSO: صدارتی آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج، کیا سینیٹ الیکشن میں خلل پڑ سکتا ہے؟
دورِ آمریت میں وفاداریاں خریدنے کے الزامات
29 مئی 1988 کو جب ضیاء الحق نے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کردیا تو اُنہوں نے فضل حق کو نگران وزیر اعلیٰ بنایا اور ارباب جہانگیر سے ناراض زیادہ تر ممبران اسمبلی کو نگران کابینہ میں وزارتوں کے عہدوں پر فائر کر دیا تھا۔ 1990 کے انتخابات کے وقت خیبر پختونخوا اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے 22 ممبران اسمبلی تھے اور ان میں سے دو ممبران کے خلاف بعد میں پارٹی نے سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد پر کارروائی کی تھی۔