سینیٹ ریپبلیکنز نے دو جماعتی بارڈر پیکیج کی راہ مسدود کر دی

سینٹ میں اکثریئیتی پارٹی کے لیڈر چک شومر ۔فائل فوٹو

سینٹ ریپبلیکنز نے ایک دو جماعتی بارڈر پیکیج کی راہ مسدود کر دی ہے۔ اور یوں دونوں جماعتوں کے درمیان اس قانون سازی پر مہینوں سے جاری مذاکرات رک گئے ہیں جس کا مقصد ریکارڈ تعداد میں غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کی تعداد کم کرنا تھا۔

بہت سے ریپبلیکنز کا کہنا تھا کہ انتخابی سال کا سمجھوتہ کافی نہ تھا۔ حالانکہ بل کے حامیوں کا اصرار تھا کہ یہ ایک بہترین بل تھا جو ایک منقسم حکومت میں آ سکتا تھا۔

بل کو پیش کرنے پر ووٹنگ اس وقت ہوئی جب زیادہ تر ریپبلیکنز نے کہا کہ وہ اصل قانون سازی کے خلاف ووٹ دیں گے جس میں یوکرین کے لیے زمانہ جنگ کے 60 ارب ڈالر اور اسرائیل کے لیے 14 ارب ڈالر کی امداد شامل ہے۔

جی او پی کے قانون سازوں کا اصرار تھا کہ بیرون ملک تصادموں کے لیے مختص کی جانے والی رقم کو امریکی سرحد کے لیے مدد سے جوڑا جائے۔

SEE ALSO: امریکہ: سیاہ فام مذہبی رہنماؤں کا بائیڈن سے غزہ جنگ بند کرانے کا مطالبہ

بل کو جیتنے کے لیے 60 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ جب کہ انچاس کے مقابلے میں حمایت میں آنے والے 50 ووٹ مطلوبہ تعداد سے بہت کم تھے۔

سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر چک شومر نے قبل ازیں کہا تھا کہ وہ زمانہ جنگ کی فنڈنگ کو بچانے کی کوشش کریں گے اور کیف، اسرائیل اور امریکہ کے دوسرے اتحادیوں کے لیے ،جو ایک ترمیم شدہ پیکیج ہو گا جس میں بارڈر والے حصے کو الگ کر لیا جائے گا۔ اس پر ٹیسٹ ووٹنگ کرانے کی کوشش کریں گے۔

SEE ALSO: بحیرۂ احمر: امریکہ نے حوثیوں کے فائر کردہ چھ میں سے ایک میزائل تباہ کر دیا

یوکرین کے لیے امداد کی مد میں کوئی 60 ارب ڈالر کی کانگریس سے منظوری ایوان اور سینیٹ میں سخت موقف رکھنے والے قدامت پسندوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی مخالفت کے باعث نہیں مل پا رہی ہے جو اسے زیاں قرار دیتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنگ سے نکلنے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔

زمانہ جنگ کی فنڈنگ سے اندرون ملک دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری ہو گی، ایشیا میں اتحادیوں کے لیے مالی وسائل فراہم ہوں گے اور دس ارب ڈالر یوکرین، اسرائیل، غزہ اور دوسرے مقامات پر انسانی ہمدردی کی کوششوں کے لیے مختص ہوں گے۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن سمجھتے ہیں کہ ایک نئی سرحدی پالیسی ہونی چاہئیے۔ لیکن وہ یوکرین اور اسرائیل کے لیے امداد کو الگ رکھنا چاہیں گے، جیسا کہ وہ شروع ہی سے چاہتے ہیں۔

اس خبر کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔