سنیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بلوچستان میں قتل ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم رکن ارمان لونی کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کر دی ہے۔
کمیٹی نے کوہستان ویڈیو اسکینڈل منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی کے اہل خانہ اور سماجی کارکن فرزانہ باری کو سکیورٹی فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
سنیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سنیٹر جہانزیب جمالدینی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں ہوا۔
اجلاس شروع ہوا تو سنیٹر عثمان کاکڑ نے ارمان لونی کے قتل کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ اب تک قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی. سنیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ لوگوں کو سرعام مار دیا جاتا ہے اور ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جاتی۔ اُنہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور کمیٹی کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس پر کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ ہم اس معاملے پر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک اجلاس رکھیں گے۔
کمیٹی نے ارمان لونی کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر درج کر کے آگاہ کیا جائے۔
گزشتہ سال بلوچستان کے علاقے لورالائی میں ارمان لونی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہو گئے تھے جس کی ایف آئی آر اب تک درج نہ ہو سکی۔
کوہستان ویڈیو اسکینڈل منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی کا معاملہ بھی کمیٹی میں زیر بحث آیا اور آئی جی خیبر پختونخواہ نے بریفنگ دی۔ مقتول کے بھائی اور چچا نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔
سماجی کارکن فرزانہ باری نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 2012 میں جرگے کے فیصلے پر لڑکیوں کے قتل کا معاملہ افضل کوہستانی نے اٹھایا تھا اور اس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے از خود نوٹس لیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ افضل کوہستانی کے تین سگے بھائیوں کو قتل کر دیا گیا اور جس نے قتل کیا وہ بھی دو سال پہلے مارا گیا۔ پولیس نے افضل کوہستانی کے بھانجے کو گرفتار کر لیا ہے اور اب پولیس اس پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ قتل کا اعتراف کرے جبکہ بقول اُن کے اس نے قتل نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج سات سال بعد پولیس بھی مان رہی ہے کہ لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں۔ پہلے جھوٹی لڑکیاں پیش کرتے رہے اور اب سات سال بعد اس کیس کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔
افضل کوہستانی کے بھائی نے کمیٹی ممبران کو بتایا کہ افضل کا کیس ہمارے بھانجے کے اوپر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ متعلقہ ایس ایچ او عبدالغفور بھی اس واقعے میں ملوث ہے۔ ہماری جانوں کو خطرہ ہے۔ ہم گھروں تک محدود ہو گئے ہیں اور کاروبار تک نہیں کر پا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نو قتل ہونے کے باوجود کیس انسداد دہشتگردی کی عدالت میں نہیں بھیجا گیا جس پر صوبائی وزارت داخلہ کے حکام نے کہا کہ کمیٹی سفارش کرے تو کیس کا دوبارہ جائزہ لیا جا سکتا ہے اور پراسیکیوشن سے بات کی جا سکتی ہے۔
سماجی کارکن فرزانہ باری نے کہا کہ افضل کوہستانی کے بعد میری جان کو بھی خطرہ ہے۔ اگر مجھے کچھ ہوا تو ذمہ دار آئی جی کے پی کے، ڈی آئی جی اور اعلیٰ حکام ہوں گے۔ کمیٹی نے افضل کوہستانی کے اہل خانہ اور فرزانہ باری کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کی سفارش کر دی۔
خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آ کر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب میں رقص کیا تھا اور وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائی تھیں۔
تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا اور بعد میں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
قبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
اس وقت کی وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے واقعے کی تردید کی تھی جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔