پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ نواز شریف 1999 میں کارگِل تنازع پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ان کا یہی فیصلہ مارشل لأ لگنے کی بڑی وجہ بنا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ کا کارگِل جنگ کے 20 سال مکمل ہونے پر کہنا تھا کہ جب یہ باتیں سامنے آئیں کہ لائن آف کنٹرول کے پار مجاہدین نہیں بلکہ اپنی ہی فوج تھی تو نواز شریف سخت غصے میں تھے۔ نواز شریف ان معاملات سے بالکل لاعلم تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’نواز شریف اس لیے بھی غصے میں تھے کہ کارگِل جنگ سے کچھ ماہ قبل ہی بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور کشمیر سمیت تمام معاملات پر بات مثبت طریقے سے آگے بڑھ رہی تھی‘۔
سینیٹر مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ ان دعووں میں کوئی صداقت نہیں کہ پاکستان یہ جنگ جیت رہا تھا اور سیاسی کمزوری سے جیت ہاتھ سے نکل گئی۔ جب کارگِل کا معاملہ کھلا تو پاکستان کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
مشاہد اللہ خان کے مطابق وہ 20 سال قبل لیبر منسٹری کے مشیر کے طور پر کام کر رہے تھے اور اتفاق سے اس وقت امریکہ میں موجود تھے جب نواز شریف کو ایل او سی پر جنگ بندی کے لیے واشنگٹن کا رُخ کرنا پڑا تھا۔
مشاہد اللہ نے کہا کہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بحری اور فضائی فوج کے سربراہان کارگِل میں ہونے والی تمام پیش رفت سے لاعلم تھے۔ کارگِل جنگ کے پیچھے صرف جنرل پرویز مشرف اور ان کے چند قریبی ساتھی تھے۔
کارگِل جنگ میں پاکستان کی مبینہ ناکامی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف بھارت کے ساتھ ثالثی اور جنگ بندی کے معاملے پر بات کرنے کے لیے جنرل مشرف کو اپنے ساتھ واشنگٹن لے جانا چاہتے تھے لیکن جنرل مشرف امریکہ جانے کے لیے رضامند نہیں ہوئے، البتہ وہ نواز شریف کو جہاز پر چھوڑںے اور لینے چکلالہ ایئربیس گئے تھے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کارگِل تنازع اور حالات بگڑنے کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے نواز شریف نے کیا اقدامات کیے اور کسی کو سزا کیوں نہیں مل سکی؟، سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ امریکہ پہنچنے اور ’واشنگٹن معاہدے‘ کے ذریعے جنگ بندی کروانے کے عمل کے دوران پاکستان کی پوزیشن بہت کمزور ہوچکی تھی اور ہر ملک پاکستان کو خطے میں کشیدگی اور سیکڑوں جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا۔
مشاہد اللہ خان کے مطابق نواز شریف یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ کمیشن بنے گا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی حکومت کا جلد تختہ اُلٹ دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سِول حکومتیں کبھی بھی اتنی مضبوط نہیں رہیں کہ وہ سخت فیصلے کر سکیں۔ جمہوریت ارتقائی عمل ہے اور ایک لمبی جنگ کا نام ہے۔
سینیٹر مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اوربھارت جوہری طاقت رکھتے ہیں اس لیے معاملات بگڑنے کا خطرہ تو معمولی جھڑپ سے ہی ہونے لگتا ہے البتہ کارگِل کے وقت ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات کبھی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ معاملات کو جان بوجھ کر خراب کیا گیا جس کے ذمہ دار جنرل پرویز مشرف تھے جنہوں نے حکمت اور عاقبت اندیشی سے کام لیے بغیر کارگِل جیسا انتہائی قدم اٹھایا جس سے کشمیر کے مسئلے کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
واضح رہے کہ کارگِل بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کا ایک ضلع ہے جہاں 3 مئی سے 26 جولائی 1999 کے دوران لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف پاکستان اور بھارت کے مابین صورتحال کشیدہ ہوتے ہوتے جنگ کی شکل اختیار کر گئی تھی۔
پاکستان اور بھارت اس جنگ میں ہلاکتوں اور زخمی ہونے والوں کی الگ الگ تعداد بتاتے ہیں جب کہ غیر جانبدار ذرائع کہتے ہیں کہ کارگِل کی لڑائی میں 700 افراد ہلاک ہوئے تھے۔