افغانستان کے مشرقی صوبے غزنی کے مختلف اضلاع میں طالبان کے ساتھ کئی روز سے جاری شدید لڑائی میں درجنوں سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
غزنی کی صوبائی کونسل کے حکام نے منگل کو بتایا کہ طالبان گزشتہ رات شدید لڑائی کے بعد دو اضلاع دہ یک اور جغتور کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
کونسل کی رکن لطیفہ اکبر کے مطابق دہ یک میں اس لڑائی میں 20 پولیس اہلکار مارے گئے جن میں ضلعی پولیس افسر سیداللہ طوفان اور ریزرو پولیس کے ایک کمانڈر بھی شامل ہیں۔ افغان حکومت نے تاحال 12 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
اسی صوبے کے ایک اور ضلع اجرستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں بیس پولیس اہلکاروں کے مارے جانے کا بتایا جاتا ہے۔
طالبان نے اتوار کو یہاں گورنر کے دفتر کا محاصرہ کیا تھا۔ انھیں مقامی سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے بھیجے گئے اسپیشل فورسز کے دستوں نے وہاں سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔
لڑائی میں شریک ایک یونٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تمام سرکاری تنصیبات اس وقت سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ لڑائی میں دس طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
غزنی کے صوبائی گورنر کے ترجمان عارف نور نے دو اضلاع پر طالبان کے قبضے کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ گو کہ ان علاقوں میں پولیس کو اپنے ہیڈکوارٹرز سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے لیکن اب بھی طالبان کے ساتھ سکیورٹی فورسز کی لڑائی جاری ہے۔
غزنی میں یہ لڑائی ایک ایسے وقت جاری ہے جب حال ہی میں طالبان نے مغربی صوبے فرح میں کئی روز تک اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے حملے کیے۔
افغانستان میں تعینات امریکی فوجی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے گزشتہ ہفتہ فرح کا دورہ کیا اور وہاں کے عوام کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ فرح کو طالبان کے ہاتھوں "شکست نہیں ہوگی۔"
اس دورے میں افغان وزرائے داخلہ و دفاع کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ میں جنرل نکولسن کے ہمراہ تھے۔
دریں اثنا جنوبی صوبے قندھار میں ہونے والے ایک دھماکے میں کم ازکم چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
صوبائی گورنر کے ترجمان داؤد احمدی کے مطابق دوپہر کے وقت ڈسٹرکٹ 14 کے ایک ویران علاقے میں بارود سے بھری گاڑی کھڑی تھی۔ افغان انٹیلی جنس کے اہلکار بارودی مواد کو بحفاظت ناکارہ بنانے کے بارے میں غور کر رہے تھے کہ اسی دوران گاڑی میں دھماکا ہو گیا۔
میرویس اسپتال کے ڈاکٹروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زخمیوں میں آٹھ سکیورٹی اہلکار اور چار بچوں سمیت 21 عام شہری شامل ہیں۔
زخمیوں کی اکثریت جائے وقوع کے قریب واقع گاڑیوں کی ایک ورکشاپ میں کام کر رہی تھی۔
تاحال کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
گزشتہ ماہ طالبان کی طرف سے "الخندق" کے نام سے شروع کی گئی کارروائی کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں وزرائے دفاع و داخلہ اور انٹیلی جنس کے سربراہ نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ طالبان کے حملوں میں سیکڑوں ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔
تاہم ان کے بقول افغان فورسز نے عسکریت پسندوں کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کے علاوہ اور ان کے 70 فیصد منصوبوں کو ناکام بنایا۔
گزشتہ سال افغان فورسز کو غیر معمولی جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا اور یہ تعداد دس ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔