حوثی باغیوں کے حامی لشکروں نے بدھ کو یمن کی ایک اہم فوجی ہوائی اڈے پر حملہ کرکے اسے قبضے میں لے لیا ہے۔
حوثی لشکروں کو فوج کے کچھ دستوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ فوجی ذرائع اور علاقے کے رہاشیوں کے مطابق حملے کے بعد حوثی باغیوں کے حامیوں اور صدر عبد ربه منصور ہادی کے وفاداروں کے درمیان شدید لڑائی شروع ہو گئی تھی۔
عدن سے 60 کلومیٹر شمال میں واقع العناد ائیربیس اہم انٹیلی جنس مقاصد کے لیے امریکہ کے زیرِ استعمال رہی ہے۔ امریکہ اسے یمن میں موجود القائدہ کے ارکان کے خلاف ڈرون حملوں کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
یمن کی ابتر ہوتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر امریکہ نے ہفتے کو وہاں سے اپنا تمام عملہ واپس بلا لیا تھا۔
حوثی باغیوں نے حالیہ مہینوں میں یمن کے زیادہ تر شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ منگل کو حوثی باغیوں نے الضالع شہر میں داخل ہو کر صدر ھادی کے حامیوں کے ساتھ شدید لڑائی کی۔ جبکہ معزول صدر علی عبداللہ صالح کے حامی باغیوں اور فوجیوں نے تعز صوبے کے شمال میں حوثی مخالف مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں کیں۔ فوجیوں نے مظاہریں پر گولی چلائی جس سے طبی حکام کے مطابق کم از کم ایک ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
ان واقعات سے یمن میں خانہ جنگی میں شدت آئی ہے جہاں مخالف دھڑے مزید علاقوں پر قبضے کے لیے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ ستمبر حوثیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔صدر ھادی نے جنوب میں واقع عدن شہر میں پناہ لے رکھی ہے جہاں وہ گزشتہ ماہ صنعا میں نظر بندی سے فرار کے بعد اپنی عملداری قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یمن کی ابتر ہوتی ہوئی صورتِ حال نے علاقائی ممالک اور عالمی حلیفون کی توجہ حاصل کی ہے۔
پیر کو یمن میں امریکہ کے سفیر میتھیو ٹیولر نے پیر کو کہا کہ وہ ’’نسبتاً پُر امید‘‘ کہ عالمی طور تسلیم شدہ صدر عبد ربه منصور ہادی کی حکومت اور حوثی باغیوں، جنہوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر رکھا ہے، کے درمیان شراکتِ اقتدار کا کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں جلد فیصلے کرنے ہوں گے۔
یمن میں 2012 سے خانہ جنگی جاری ہے جب عوامی بغاوت کے ذریعے یمن کے دیرانہ مردِ آہن صدر علی عبداللہ صالح کو معزول کر دیا گیا تھا۔