امریکہ میں آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخاب کے سلسلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے اُمیدواروں کی طویل فہرست موجود ہے اور ان میں سے چند نمایاں اُمیدواروں کی عمریں 70 سال یا اس سے زائد ہیں۔
برنی سینڈرز 78 سال کی عمر کے ساتھ کلیدی اُمیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ تاہم انہیں بدھ کے روز ایک ریلی کے دوران سینے میں تکلیف محسوس ہوئی اور یوں اُنہیں عارضہ قلب کی جانچ کے لیے اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ جہاں ان کی دو بند شریانوں کو کھولنے کے لیے اسٹنٹ ڈالے گئے۔
برنی سینڈرز کے علاوہ جو بائیڈن کی عمر 76 برس ہے جبکہ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی 73 برس کے ہیں۔
امریکہ میں صدر کا کام معاملات کو دیکھنا اور فیصلہ کرنا ہوتا ہے جس کے لیے اس منصب پر فائز شخص کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
صدر بننے سے قبل ہر اُمیدوار کو انتخابی مہم کی چکّی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور یہ مہم عام طور پر انتخاب سے لگ بھگ دو برس قبل شروع ہو جاتی ہے اور اُمیدوار کو بار بار امریکہ کی پچاس ریاستوں میں سفر کرتے ہوئے انتخابی ریلیوں میں شرکت کرنا پڑتی ہے۔
اس کے علاوہ انتخابی مہم کے خطیر اخراجات پورے کرنے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے بھی سخت دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے۔
یوں بعض حلقوں میں یہ بحث ہونے لگی ہے کہ کیا صدارتی منصب کے اُمیدوار کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر ہونی چاہیے؟
بڑھتی عمر کے امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ صدارتی فرائض کی بجا آوری کے لیے جسمانی صحت کو عمر کی کسی حد کے ساتھ جوڑنا غیر مناسب ہے کیونکہ کوئی شخص 80 برس کی عمر میں بھی 60 برس کے کسی شخص کے مقابلے میں زیادہ صحت مند اور توانا ہو سکتا ہے جبکہ کوئی 60 برس کی عمر کا شخص 80 برس کی عمر کے کسی شخص کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیر صحت مند ہو سکتا ہے۔
ویل کارنل میڈیسن یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر مارک لیکس کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی مستند جواب نہیں دیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ عمومی طور پر یہ بات درست ہے کہ جسمانی اور ذہنی کمزوریاں عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں لیکن مختلف انسانوں کے صحت کے حالات میں اس قدر فرق موجود ہوتا ہے کہ اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔
بیماریوں کے کنٹرول اور اُن کے تدارک کے مرکز کے مطابق امریکہ میں زندہ رہنے کی اوسط عمر 79 سال ہے جس میں طبی شعبے میں جاری پیش رفت کے باعث مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ صحت سے متعلق عمومی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ 85 سال سے زائد عمر کے لوگوں میں کم از کم ایک پیچیدہ بیماری پائی گئی ہے جبکہ ان کی تین چوتھائی تعداد سے زائد کو کم از کم دو ایسی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ تاہم ڈاکٹر مارک لیکس کہتے ہیں کہ صدارتی اُمیدوار کیلئے عمر کی حد مقرر کرنا درست نہیں ہے۔
جنوبی کیرولائنا کی ایک 70 سالہ ریٹائرڈ اکائنٹنٹ ہیلیسٹائن زیمرمین کہتی ہیں کہ اُن کے شوہر عمر میں اُن سے بڑے ہیں اور اُن کا تین مرتبہ بائی پاس ہو چکا ہے اور وہ اب بھی ٹینس کھیلتے ہیں۔ وہ برنی سینڈرز کے عارضہ قلب کے حوالے سے کہتی ہیں کہ آجکل کے دور میں سٹینٹ لگوانے کے بعد بھی کوئی شخص چاک و چوبند رہ سکتا ہے۔ لہذا برنی سینڈرز کا بھی اپنی صدارتی مہم جاری رکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
برنی سینڈرز کے علاوہ جو بائیدن اور سنیٹر الزبتھ وارن کو بھی صحت سے متعلق سوالات کا سامنا رہتا ہے۔ وہ شدید گرمی کے موسم میں بھی اپنی انتخابی مہم زور شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہر روز متعدد شہروں کا سفر کر کے کئی انتخابی ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے متعدد بار جو بائیدن کو صحت سے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ’’خوابیدہ جو‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
صدارتی امیدواروں کیلئے موذوں عمر کیا ہونی چاہئیے؟ اس بارے میں پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے مئی میں کیے گئے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی عمومی طور پر ایسے امیدوار کو ترجیح دینے کے حق میں ہیں جس کی عمر 40 اور 60 سال کے درمیان ہو۔ دیگر جائزوں میں زیادہ لوگوں نے کسی اُمیدوار کے گے، مسلمان یا آزاد ہونے کے مقابلے میں عمر رسیدہ ہونے کے حوالے سے زیادہ عدم اطمنان کا اظہار کیا تھا۔
1992 کے بعد سے بل کلنٹن اور براک اوباما ایسے صدر تھے جنہوں نے اپنی کم عمری کو بھی انتخابی مہم کا حصہ بنایا تھا۔ تاہم رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے معمر ترین صدر ہیں۔ اُنہوں نے جب منصب صدارت سنبھالا تو اُن کی عمر 70 سال 220 دن تھی جبکہ دوسرے نمبر پر رپبلکن پارٹی ہی کے رونلڈ ریگن تھے جو 69 سال 349 دن کی عمر میں امریکہ کے صدر بنے۔