پاکستان میں سکھ ورثے کی تلاش اور اس بارے میں ایک کتاب کے مصنف امردیپ سنگھ کہتے ہیں کہ سکھ ورثہ محض ’ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب تک محدود نہیں ہے‘۔
امردیپ سنگھ سنگاپور میں رہتے ہیں اور پہلی مرتبہ وہ 2014 میں پاکستان آئے تھے، جس کے بعد اُنھوں نے سکھ ورثے کے بارے میں ایک کتاب ’دی لوسٹ ہیریٹیج، دی سکھ لیگیسی ان پاکستان‘ لکھی۔
اس کتاب میں تصاویر کے ساتھ پاکستان میں سکھ ورثے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔
امردیپ سنگھ نے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں کہا کہ اُن کے والد اور خاندان کے دیگر افراد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں مقیم رہے تاہم 1947 کے بعد وہ بھارت کی ریاست اترپردیش منتقل ہو گئے۔
امردیپ کے بقول اُن کے والد اکثر اُنھیں مظفر آباد میں گزرنے والے وقت کے بارے میں بتاتے تھے اور اپنے والد کے انتقال کے بعد اُن کی یہ خواہش تھی کہ وہ مظفرآباد دیکھیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ 25 سال تک ملازمت کے بعد بالآخر 2014 میں اُنھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔
’’میں کتاب لکھنے یہاں آیا نہیں تھا، میں2014ء میں آیا تھا صرف اپنے ایک نجی معاملے کے اوپر، نجی معاملہ یہ تھا کہ میں مظفر آباد کی مٹی کو چھونا چاہتا تھا جہاں سے میرے والد صاحب آئے تھے میرے والد صاحب مظفرآباد سے تھے میری امی ایبٹ آباد سے تھیں تقسیم میں ساری برادریوں کو کافی نقصان ہوا ہے مسلمانوں کو مشرقی پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں کو مغربی پنجاب میں ہوا ہے کافی نقصان اور ہمارے والد صاحب وہ شفٹ ہو گئے تھے یو پی (اترپردیش) میں چلے گئے تھے۔‘‘
امردیپ نے کہا کہ اُنھوں نے اپنے 30 دن کے قیام کے دوران پاکستان میں 30سے زائد مقامات دیکھے اور جب وہ واپس گئے اور تصاویر دیکھیں تو اُنھیں سکھ ورثے کے بارے میں کتاب لکھنے کا خیال آیا۔
وہ کہتے ہیں کہ سکھ برادری کا دو تہائی حصہ بھارت جب کہ ایک تہائی دنیا کے دیگر ممالک میں آباد، لیکن اُن کے بقول آج کے نوجوان سکھ کو ’ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب‘ کے علاوہ سکھ ورثے کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔
’’بھارت میں ہماری دو تہائی قوم ہے اور ایک تہائی قوم ہماری بھارت سے باہر ہے اور ویل ٹو ڈو قوم ہے محنتی قوم ہے۔ لیکن ان سے آپ پوچھیں کہ آپ اگر پاکستان جانا چاہتے ہیں تو آپ کہاں جائیں گے۔۔۔۔ کیا آپ کو پتہ ہے تو ان کو ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب کے علاوہ کچھ اور پتہ ہی نہیں ہے تو مجھے یہ دکھ لگتا تھا ہماری تاریخ جو یہاں تھی، تقسیم کے 70 سال بعد لوگ بھول گئے ہیں۔‘‘
امردیپ کے بقول سکھ ورثے کا 80 فیصد پاکستان میں تھا۔
’’رنجیت سنگھ کی 1839ء میں جب موت ہوتی ہے تو وہ نقشہ دیکھیں اس میں اگر آپ شہروں (کی نشاندہی کریں) تو اس کا 20 فیصدی جو ہے وہ بھارت میں ہے۔۔۔ 80 فیصد پاکستان میں ہے تو یہ سوچنے کی بات ہے کہ سکھ قوم کا جو 80 فیصد رقبہ تھا جس میں ہمارا ورثہ تھا وہ یہاں پڑا ہوا ہے اس کے بارے میں ہم لوگوں کو کچھ پتہ نہیں ہے تو اپنی کمیونٹی میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے میں نے یہ کتاب لکھنے کا سوچا۔‘‘
امردیپ کہتے ہیں کہ پاکستان سکھ ورثے کے ذریعے دنیا بھر سے سیاحوں کو راغب کر سکتا ہے۔
’’اس ورثے کو اگر آپ بچائیں تو ہو سکتا ہے پنجاب کے لیے ہی سیاحت بڑھے، پاکستان کے لیے ہی ٹورازم بڑھے گا اور اس کے ذریعے ایک مثبت تصویر بھی بن سکتی ہے پاکستان کی۔۔۔ میں تو یہی چاہتا ہوں میری یہی درخواست ہے پاکستانی حکومت سے کہ اس کتاب کے ذریعے ہم اس کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔‘‘
ہر سال بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک سے سکھ یاتری، سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کے یوم پیدائش کی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان آتے ہیں۔
سکھ مذہب کے بانی گورونانک وسطی پنجاب کے ضلع ننکانہ میں 1469 میں پیدا ہوئے اور یہاں پر ایسے مقامات موجود ہیں جن کا تعلق ان کے بچپن اور جوانی کے ایام سے ہے۔