خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں رہائش پذیر سکھ برادری نے اپنے ایک اسکول کو بچانے کے لیے چندہ مہم شروع کر رکھی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسکول کرایے کی ایک عمارت میں قائم ہے جس کے مالک نے انتظامیہ کو عمارت خالی کرنے اور اسکول کہیں اورمنتقل کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔
سکھ برادری کے رہنماﺅں کے مطابق آسیہ گیٹ کے علاقے میں ایک نجی عمارت میں قائم The Rising Hope Public School تقریباً تین سال پہلے قائم کیا گیا تھا جس میں زیرِ تعلیم 80 فی صد بچوں کا تعلق سکھ برادری جبکہ بقیہ 20 فی صد کا ہندوؤں اور مسیحیوں سمیت دیگر مذہبی اقلیتوں اور مسلمانوں سے ہے۔
اسکول کی اپنی ذاتی عمارت نہ ہونے کے باعث پچھلے تین برسوں میں یہ اسکول تین مختلف عمارتوں میں منتقل ہوچکا ہے اور فی الوقت اسکول سکھ برادری کے قدیم گوردوارہ بھائی بیباسنگھ کے قریب 30 ہزار ماہوار کرایے پر لیے جانے والے ایک مکان میں قائم ہے۔
پشاور میں آباد سکھ برادری کے رہنما سردار گورپال سنگھ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اسکول کی موجودہ عمارت کے مالک نے عمارت کی قیمت 75 لاکھ روپے مانگی ہے جوان کے بقول ان کی استطاعت سے باہر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسکول کو بے دخلی سے بچانے کے لیے برادری کے لوگ اب چندہ جمع کر رہے ہیں۔
سردار گورپال سنگھ نے کہا کہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ سکھ برادری کے بچوں کے لیے اسکول کا انتظام کرے۔
گورپال سنگھ نے بتایا کہ آزادی سے قبل پشاور صدر کے علاقے میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے ایک اسکول مختص تھا جو اب محکمۂ تعلیم کی ملکیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس اسکول کی عمارت ہی سکھ برادری کے حوالے کردی جائے تو ان کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے 250 بچے مذکورہ اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں جن کی اکثریت کا تعلق قبائلی علاقوں سے پشاور منتقل ہونے والے سکھ خاندانوں سے ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان سے منسلک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے باعث گزشتہ ایک دہائی کے دوران اورکزئی، خیبر اور کرم ایجنسیوں میں آباد کئی سکھ خاندان پشاور منتقل ہوئے ہیں۔
مذکورہ اسکول میں بیشتر اساتذہ مسلمان ہیں۔ تاہم اسکول کے انتظامی معاملات سکھ برادری کے پاس ہیں اور ہردیال سنگھ نامی ایک نوجوان اس اسکول کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ہردیال سنگھ کے مطابق فی الوقت اس اسکول میں پہلی سے لے کرساتویں جماعت تک تعلیم دی جارہی ہے اور وسائل کی دستیابی کے صورت میں اس کو ہائی اسکول میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے رابطے پر خیبر پختونخوا حکومت کے محکمۂ تعلیم کے فوکل پرنس نجی اللہ خٹک کا کہنا تھا کہ انہیں آج ہی اس مسئلے کا علم ہوا ہے اور صوبائی حکومت اس مسئلے کو حل کرنے اور سکھ برادری کے بچوں کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔