سر چھپانے کے لئے چھپر نہیں، بھوک مٹانے کا آسرا نہیں، تنگدستی، غربت، کسمپرسی کے شب و روز اور بے خودی کا عالم۔۔۔۔یہ آج کےدور کے انگریزی زبان کے ایک ماہر لسانیات اور ڈرامہ نگار مشتاق کاملانی کا دردناک احوال ہے۔
مشتاق کاملانی سندھ کے شہر سجاول میں ایسی ستم ظریفی کا شکار رہے کہ یقین بھی نہ آئے مگر تلخ حقیقت یہی ہے کہ وہ دو وقت کی روزی روٹی کے لئے بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں۔ ان کے مکان ،پلاٹ ،سب کچھ چھین لئے گئے۔
کبھی ان کا شمار ضلع سجاول سے تعلق رکھنے والے نامور ادیب،دانشور اور کہانی نویس کی حیثیت سے ہوتا تھا۔ لیکن وقت اور حالات کے تھپیڑوں نے انہیں دماغی طور پر مفلوج کر دیا جس کے سبب وہ اس حالت کو پہنچے۔
وہ جس حالت میں لوگوں کو نظر آئے، اس کی ایک جھلک سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی تصویر کو دیکھ کر جہاں عام انسان پریشانی اور سوچ میں مبتلا ہوا وہیں سندھ کی صوبائی حکومت بھی حرکت میں آئے بغیر نہ رہ سکی۔
میڈیا نمائندے بھی بالآخر مشتاق کاملانی تک پہنچے تو ان کے بھائی احمدکاملانی اور ایک قریبی رشتے دار کے توسط سے مشتاق کاملانی کے متعلق معلومات حاصل ہوئیں، جن کے مطابق مشتاق کاملانی نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے 1979ء میں گریجویٹ کیا اور اس کے بعد سندھی زبان کے مشہور ادیب اور کہانی نویس علی بابا کے ساتھ سندھ یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔
مشتاق کاملانی کو زبانیں سیکھنے اور لسانیات کا اس قدر شوق تھا کہ نہ صرف سندھی بلکہ پنجابی اور انگریزی پر بھی عبور حاصل کر لیا۔ اس دوران انہوں نے بہت سی کہانیاں بھی لکھیں جو حیدرآباد ریڈیو کے ساتھ ساتھ بھارت کی ریڈیو سروس ’آکاش وانی‘ سے بھی پیش کی جانے لگیں لیکن پھر اچانک انہیں ذہنی بیماری لاحق ہو گئی اور اس کے بعد مفلسی اور بے حالی نے آن گھیرا۔
مشتاق کاملانی ایک عرصے سےگمنامی میں تھے اور اب کہیں جا کر سوشل میڈیا کے توسط سے لوگوں اور ارباب اختیار کو پتا لگا ہےکہ وہ کس حال میں جی رہے ہیں۔
صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ اور اور ڈی جی کلچر منظور کناسرو نے کاملانی کا علاج کروانے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق جمعرات کی شام محکمہ ثقافت کے ڈپٹی ڈائریکٹر سلیم سولنگی نے ٹھٹھہ جا کر احمد کاملانی سے رابطہ کیا اور انہیں کراچی کے ایک نجی اسپتال میں سرکاری خرچ پر علاج کی یقین دہانی کرائی۔
سلیم سولنگی کے مطابق علاج کی پیش کش وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ کی ہدایت پر محکمہ ثقافت کی طرف سے کی گئی ہے اور یہی محکمہ علاج کا خرچ برداشت کرے گا۔