سندھ اسمبلی میں پیر کو ہونے والا اجلاس شدید احتجاج، نعرے بازی، ہلڑپن اور اس قدر شور شرابے کے درمیان ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ایوان پورا وقت مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا رہا, جہاں متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان آپس میں پہلے زبانی کلامی اور پھر عملاً ایک دوسرے سے الجھتے رہے۔
متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے ایک کارکن ہاشم کی ہلاکت پر سخت احتجاج کیا یہاں تک کہ انہوں نے اسپیکر کے گھیراوٴ کی بھی کوشش کی جس پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور اسی کوشش میں دونوں ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔
اجلاس کی صدارت اسپیکر اسمبلی آغا سراج درانی نے کی۔ آغاز پر ہی متحدہ کے اپوزیشن رہنما خواجہ اظہارالحسن نے پارٹی کارکن ہاشم کی ہلاکت پر دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی استدعا کی، ساتھ ہی حکومت سے ہلاکت کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔
اس مطالبے پر پارلیمانی امور کے وزیر سکندر مندھرو نے کہا کہ ایوان کسی کی خواہش کے بجائے قانون کے تحت چلایا جائے گا اور حکومت پارلیمان کو ہائی جیک نہیں ہونے دے گی۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا ہے کہ ’حکومت حقائق نہیں چاہتی ۔۔یہ بے حسی ہے‘۔
اظہار الحسن کو مزید بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ احتجاج کے طور پر متحدہ نے نعرے بازی شروع کردی، ساتھ ہی اسپیکر کے ڈائس کے گھیراوٴ کی کوشش بھی کی۔ پیپلز پارٹی کے اراکین نے انہیں ایسا کرنے سے روکا تو معاملہ تلخی اور ایک دوسرے سے الجھنے تک جا پہنچا۔ حتیٰ کہ اجلاس کو کچھ منٹوں تک ملتوی بھی کرنا پڑا۔
وقفے کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اطلاعات، نثار کُھہڑو کا کہنا تھا کہ قائد ایوان کی نشست کے سامنے احتجاج اور رویے کی مذمت کرتے ہیں، یہ طریقہ مناسب نہیں۔
جواب میں خواجہ اظہار الحسن نے کہا ہے کہ ’اگر دو منٹ ہمارے کارکن کی ہلاکت پر خاموشی کے نام کردیئے جاتے، تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ ایوان سب کے لیے برابر ہے، جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت اور افسوس کا باعث ہے‘۔